راہول کمار
آندھراپردیش ملک کی ان چار ریاستوں میں شامل ہے جہاں لوک سبھا انتخابات کے ساتھ اسمبلی انتخابات کا بھی انعقاد عمل میں لایا جارہا ہے۔ دیگر تین ریاستیں جہاں اسمبلی انتخابات بھی ہو رہے ہیں وہ اوڈیشہ، اروناچل پردیش اور سکم شامل ہیں جبکہ 13 ریاستوں میں پھیلے 26 اسمبلی حلقوں میں حتمی انتخابات کا انعقاد عمل میں لایا جارہا ہے۔ ہم بات کررہے ہیں آندھرا پردیش کی۔ اس تلگو ریاست میں اسمبلی کی 175 اور لوک سبھا کی 25 نشستوں پر 13 مئی کو رائے دہی ہوگی۔ واضح رہے کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں موجودہ چیف منسٹر جگن موہن ریڈی کی وائی ایس آر سی پی کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اس نے 25 پارلیمانی نشستوں میں سے 22 پر کامیابی حاصل کی تھی اور چندرا بابو نائیڈو کی تلگودیشم صرف 3 حلقوں میں کامیابی حاصل کرسکی تھی۔ 2019 کے اسمبلی انتخابات میں وائی آر ایس آر سی پی کو 175 حلقوں میں سے 151 حلقوں میں کامیابی ملی تھی جبکہ چندرا بابو نائیڈو کی تلگودیشم کے صرف 23 امیدوار ہی کامیاب ہوسکے تھے۔ اب تو اس اتحاد کی میگا اسٹار چرنجیوی نے تائید و حمایت کا اعلان بھی کردیا ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ آندھرا پردیش میں تلگودیشم کی قیادت این ٹی آر کی بیٹی بھونیشوری کے شوہر چندرا بابو نائیڈو کرتے ہیں، پارٹی میں این ٹی آر کے بیٹے بالا کرشنا بھی شامل ہیں جبکہ آندھرا پردیش بی جے پی یونٹ کی قیادت این ٹی آر کی بیٹی بھونیشوری کرتی ہیں پارٹی نے انہیں پارلیمانی حلقہ راجمندری سے اپنا امیدوار بنایا ہے۔ بہرحال جگن موہن ریڈی کی شکست کو یقینی بنانے چندرا بابو نائیڈو، پون کلیان، پورندیشوری، کرن کمار ریڈی وغیرہ جان توڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف جگن موہن ریڈی کو خود اپنی سگی بہن وائی ایس شرمیلا، اپنی سگی چچا زاد بہن ڈاکٹر وائی ایس سنیتا (یہ آنجہانی ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کے چھوٹے بھائی وائی ایس وویکانند کی بیٹی ہیں جنہیں کڑپہ میں قتل کیا گیا تھا اور اس قتل کے ملزمین میں کڑپہ کے موجودہ رکن پارلیمنٹ وائی ایس وایناش ریڈی بھی شامل ہیں) کی ناراضگی اور مخالفت کا سامنا ہے۔ کانگریس ہائی کمان نے وائی ایس شرمیلا کو آندھرا پردیش کانگریس کمیٹی کی صدر مقرر کیا ہے۔ ساتھ ہی پارلیمانی حلقہ کڑپہ سے بھی وہ کانگریس کی امیدوار ہیں۔ انہوں نے اپنے چچا کے مبینہ قاتل اویناش ریڈی کو دوبارہ کڑپہ سے وائی ایس آر سی پی امیدوار بنائے جانے پر برہم ہیں جس کے لئے انہوں نے اپنے ہی بھائی وائی ایس جگن موہن ریڈی کو سبق سکھانے کا اعلان کیا ہے۔ تلگودیشم کو سری کاکلم اور وجیا نگرم میں پارٹی قائدین اور کیڈر کی ناراضگی کا سامنا تھا لیکن چندرا بابو نائیڈو نے اس علاقہ کا تین روزہ دورہ کرتے ہوئے ناراض قائدین اور کیڈر کو اپوزیشن اتحاد کے امیدواروں کی کامیابی کے لئے کام کرنے پر راضی کرلیا۔ بابو نے بی جے پی اور جنا سینا اتحاد کے باعث ٹکٹ سے محروم پارٹی قائدین کو اس بات کا تیقن دیا ہیکہ انہیں اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد پارٹی کے تنظیمی عہدوں یا پھر نامزد عہدوں پر فائز کیا جائے گا۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ چندرا بابو نائیڈو اور پون کلیان، جگن موہن ریڈی کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کے خیال میں ریاست کی عوام وائی ایس آر سی پی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے کیونکہ اس حکومت نے عوام کو دھوکہ دیا ہے خاص طور پر نوجوانوں سے جگن نے جتنے بھی وعدے کئے انہیں پورا کرنے میں وہ بری طرح ناکام رہے۔ جگن نے میگا ڈی ایس سی کے اہتمام کا وعدہ کیا تھا لیکن 5 برسوں میں میگا ڈی ایس سی کا انعقاد عمل میں نہیں لایا گیا، چندرا بابو نائیڈو کے مطابق این ڈی اے اقتدار میں آتی ہے تو سب سے پہلی فائل جس پر وہ دستخط کریں گے وہ میگاڈی ایس سی کی ہوگی۔ اس کے علاوہ سرکاری آؤٹ لیٹس پر فی الوقت جو شراب فروخت کی جارہی ہے اس کی قیمتوں میں کمی کردی جائے گی۔ آپ کو بتادیں آندھرا پردیش کی سیاست فی الوقت ترقی سے زیادہ شراب کے اطراف گھوم رہی ہے۔ ویسے بھی بی جے پی، ٹی ڈی پی، جنا سینا اور وائی ایس آر سی پی امیدواروں میں ارب پتیوں کی اکثریت ہے سب کے سب دولت مند ہیں۔ دوسری طرف چندرا بابو نائیڈو کو یقین ہیکہ وہ اقتدار میں آئیں گے۔ وہ بار بار صدر تلگودیشم جگن موہن ریڈی پر دروغ گوئی کے الزامات عائد کرتی جارہے ہیں۔ اب تو انہوں نے کہہ دیا ہیکہ جگن موہن ریڈی نے جھوٹ کہنے میں پی ایچ ڈی کی ہے اور وہ بڑی خوبصورتی سے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے بھوگاپورم ایئرپورٹ کی مثال پیش کی اور کہا کہ چیف منسٹر جگن موہن ریڈی کی حکومت نے اسے پوری طرح نظرانداز کردیا ورنہ یہ ایئرپورٹ کافی عرصہ قبل مکمل ہو جاتا۔ ان کے خیال میں جگن موہن ریڈی اپنے ہر جرم کا الزام دوسروں کے سرتھوپ دیتے ہیں۔ انہوں نے علاقہ رائلسیما سے بھی دغا کیا ہے نتیجہ میں عوام جگن کی شکست چاہتے ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو اس بات کا دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ مسلم تحفظات کا تحفظ کریں گے جبکہ ان کے اتحادی بی جے پی مسلمانوں کے تحفظات کی کٹر مخالف ہے۔ بابو کے مطابق ریاست میں اس مرتبہ این ڈی اے اتحاد کو 175 میں سے 160 اسمبلی حلقوں اور 25 پارلیمانی حلقوں میں سے 24 پر کامیابی ملے گی اور وہ چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز ہوں گے۔