آندھرا پردیش میں کورونا کی تیسری لہر کی دستک

   

دو ہفتوں سے کم وقت میں تقریبا 24 ہزار بچے متاثر۔ عوام میں تشویش کی لہر
حیدرآباد۔جنوبی ہند میں کورونا کی تیسری لہر نے دستک شروع کردی ہے! پڑوسی آندھراپردیش میں 18 سے31مئی کے دوران 18 سال سے کم عمر بچوں میں کورونا کی علامات پائی جانے لگی ہیں اور اس مدت میں 23ہزار920بچے شکار ہوئے ہیں۔ ماہ مئی کے اواخر میں آندھراپردیش میں 18 سال سے کم عمر کورونا متاثرین کی تعداد کو دیکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاست میں کورونا کی تیسری لہر نے دستک دینی شروع کردی ہے ۔ تقریبا24 ہزار بچوں کے متاثر ہونے کے ساتھ محکمہ صحت نے سخت چوکسی اختیار کرنے کے علاوہ بہتر سہولتوں کی فراہمی اور بچوں کے علاج کیلئے ماہرین اطفال سے مشاورت شروع کردی ہے۔ محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 6تا18سال عمر والے 21ہزار 711 بچے کورونا متاثر ہوئے ہیں جبکہ 5 سال سے کم عمر 2209 بچے متاثر ہیں۔طبی ماہرین کے مطابق بچے عام طور پر زیادہ بیمار نظر نہیں آتے اور وہ سب سے رابطہ میں ہوتے ہیں اسی لئے وہ دوسروں کو بہ آسانی متاثر کرسکتے ہیں ۔ ایسے میں بچوں کے متاثر ہونے پر توجہ کی ضرورت ہے اور5سال سے کم عمر بچوں کے متاثر ہونے کی صور ت میں انہیں قرنطینہ کیا جانا بھی دشوار ہوتا ہے ۔پہلی و دوسری لہر میں بچوں کے کورونا سے متاثر ہونے پر علاج کے دوران ماں کو ساتھ رہنے کی اجازت تھی اور دیکھا گیا تھا کہ متاثرہ بچے ماں باپ کو متاثر کر رہے تھے ۔ آندھرا پردیش میں کورونا کا شکار بچوں کی تعداد میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم تنظیموں کی جانب سے حکومت سے مطالبہ کیا جا رہاہے کہ وہ ماہرین اطفال کو سرگرم کرکے بہتر علاج کی فراہمی یقینی بنائے اور بچوں کو کورونا کا شکار ہونے سے بچانے شعور اجاگر کرنے خصوصی مہم چلائی جائے۔ راشٹربال سواستھیا کاریکرم کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر چندراشیکھر نے بتایا کہ پہلی لہر میں ضعیف شہریوں کے بعد دوسری لہر میں نوجوان متاثر ہوئے ہیں اور یہ تیسری لہر مزید شدید ہوسکتی ہے ۔کیونکہ بچوں کے متاثر ہونے پر وہ دیگر افراد کو بھی متاثر کرسکتے ہیں کیونکہ انہیں دور رکھنا دشوار ہوتا ہے۔رائٹ ٹو ایجوکیشن فورم کے کنوینر مسٹر این پرکاش راؤ نے حکومت کو مشورہ دیا کہ گذشتہ دو لہروں سے سبق حاصل کرکے بچوں کیلئے ادویات کے اسٹاک کے علاوہ ان کے علاج کی بہتر سہولتوں کی فراہمی کی جائے ۔ ریاست میں بچوں میں کورونا پھیلنے کی خبروں پر شہریوں میں تشویش کی لہر پیدا ہونے لگی ہے۔