عرفان جابری
سب سے پہلے عنوان کے بارے میں بتادوں کہ یہ شریعت اسلامی میں مودی 2.0 حکومت (دوسری میعاد) کی ڈھٹائی سے مداخلت اور پارلیمنٹ میں طلاق ثلاثہ کو جرم اور شوہر کو 3 سال سزائے قید کا مستوجب قرار دینے والے بل کی منظوری پر ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے سر پیٹنے اور واویلا کرنے نیز محاورۃً آنسو بہانے سے منسوب ہے۔ مجھے قوی اندیشہ ہے کہ ناعاقبت اندیش مرکزی حکومت کی طرف سے یہ تو مسلمانوں کے خلاف شروعات ہے۔ امت مسلمہ کو آنے والے برسوں میں کڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑے گا، جس کے بارے میں خالق کائنات نے پہلے ہی متنبہ کردیا ہے کہ تم (ہر انسان) ضرور آزمائے جاؤگے۔
حالیہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج جب منظرعام پر آئے اور برسراقتدار حکومت پیشرفت کرتے ہوئے بی جے پی کی 302 نشستوں (جو کیونکر ممکن ہوئے، الگ بحث ہے) اور این ڈی اے کی زائد از 350 لوک سبھا سیٹوں کے ساتھ مودی 2.0 میں تبدیل ہوگئی، مجھے اور مجھ سے بہتر دینی، دنیوی بالخصوص سیاسی فہم و ادراک کے حامل بے شمار افراد کا ماتھا ٹھنکا اور اندیشے پیدا ہوئے کہ آنے والے برس ہندوستان کی اقلیتوں کیلئے (خدا نہ کرے) بہت بھاری ہوں گے۔ ہندوستان میں برسہابرس سے دیکھنے میں آیا ہے کہ اقلیتوں میں اصل نشانہ مسلمان ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں حوالہ دے دیا کہ یہود و نصاریٰ سب سے زیادہ مغضوب اور گمراہ قومیں ہیں۔ ظاہر ہے ان قوموں کو اسلام اور مسلمانوں سے بہت بغض ہوگا۔ فلسطینی علاقوں میں پڑوسی اسرائیل کے یہودیوں کا ظلم اور کسی عیسائی ملک میں مسلمانوں کے خلاف تشدد سمجھ میں آتا ہے، لیکن ہمارے ہندو اکثریتی ملک میں نہ یہود حکمران ہیں، نہ ہی عیسائی۔ پھر بھی 2014ء میں تبدیلی ٔ حکومت کے بعد سے ’ہجومی تشدد‘ (بہ معنی: ماب لنچنگ) عام ہوگیا جس میں گائے، بیف، ٹوپی، لباس وغیرہ کے مختلف بہانوں سے بنیادی طور پر مسلمانوں کو نہ صرف شدید زدوکوب بلکہ ہلاک بھی کیا جارہا ہے۔ شاید یہ امریکہ اور اسرائیل سے بڑھتی قربت کا نتیجہ ہے!
مودی 2014ء میں بی جے پی کے اندرون بعض گروپوں کی مخالفت کے درمیان وزیراعظم بنے اور پھر اُن کے پاس قانونی، دستوری اور کسی کمیونٹی کے پرسنل لا میں مداخلت کیلئے پارلیمنٹ میں درکار عددی طاقت ٹھوس نہ تھی کہ وہ بے خوف ہوکر اپنے اصل ایجنڈے پر عمل شروع کردیتے۔ چنانچہ 2014-19ء میں آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بی جے پی نے خود کو مالی طور پر مستحکم بنانے کیلئے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی اور سیاسی جوڑ توڑ کے تجربات تک محدود رکھا۔ یوں سمجھئے کہ وہ مستقبل کے انتشار پسندانہ منصوبوں کیلئے بنیادی کام میں مشغول رہے۔ ویسے بھی انھیں کچھ اور کام تو تھا نہیں۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس، (عوام کیلئے) اچھے دن، کرپشن اور کالادھن کا خاتمہ، ہر شہری کے بینک اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کرانا جیسے نعرے تو محض کھوکھلے انتخابی وعدے تھے ( جن کو خود امیت شاہ نے انتخابی جملے قرار دیا)، اس لئے سربراہ حکومت بیرون ملک سیرسپاٹے کرتے رہے اور سرکاری ریکارڈ میں بعض نئے ملکوں کے نام درج کرائے۔
تین طلاق بل پارلیمنٹ سے صدارتی منظوری تک تیزی سے سفر طے کرتے ہوئے اب قانون بن چکا ہے جس پر ستمبر 2018ء سے استقدامی اثر کے ساتھ عمل ہوگا۔ یہ قانون مسلم سیاسی قیادت اور مجموعی طور پر ہندوستانی مسلمانوں کیلئے المیہ ہے۔ کتنا تضاد ہے کہ ایک طرف قرآن میں بہ یک وقت طلاق ثلاثہ کو احسن طریقہ قرار نہیں دیا گیا لیکن ایسا نہیں کہ بہتر طریقہ نہ ہونے کی وجہ سے طلاق واقع نہ ہوگی، دوسری طرف مودی حکومت کا لایا گیا قانون مرد اور عورت کے شرعی رشتے کو حرام کررہا ہے اور ساتھ میں دونوں کیلئے نفسیاتی، معاشی اور سماجی مسائل بھی پیدا کررہا ہے۔ پھر بھی حکومت سینہ ٹھونک کر کہہ رہی ہے کہ مسلم خواتین سے انصاف کا تاریخی قانون لایا گیا ہے۔ اس سے زیادہ افسوس شرعی مسائل کے معاملے میں جاہل مگر پڑھی لکھی بعض خواتین کی طرف حکومت کا حوصلہ بڑھانے پر ہورہا ہے۔ اس کے برخلاف بعض خاتون جہدکاروں نے تین طلاق قانون میں بالخصوص نان و نفقہ یا گزارہ کی گنجائش پر بے اطمینانی ظاہر کی ہے۔ حکومت نے اس قانون کو لانے کے جواز کے طور پر پاکستان اور بعض دیگر مسلم ملکوں کا حوالہ دیا ہے۔ بے شک وہاں طلاق کے احسن طریقہ سے روگردانی کو روکنے کیلئے قانون بنائے گئے لیکن اس طرح شریعت میں مداخلت کی بدنیتی والی شقیں شاید ہی کہیں ملیں گی جیسے ہندوستان میں کیا گیا ہے۔ اور بالفرض مسلم ملکوں کے قانون میں کچھ خامی پائی جائے تو غلطی کی نقل کرنا کونسی عقل مندی ہے؟ وہ تو بدنیتی کے سبب ہی ہوگی۔ طلاق کے بارے میں خالق کی طرف سے فطرتِ انسان کے مطابق رہنمائی کیلئے سورۂ طلاق کا عربی متن، ترجمہ و تفسیر کا تفصیلی و بغور مطالعہ کیجئے۔
مودی حکومت کی پہلی میعاد میں ہی شروع کردہ این آر سی یا نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس نے آسام میں ابتدائی فہرست کے مطابق تقریباً 40 لاکھ مسلمانوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے۔ ناخواندہ اور بھولے بھالے آسامی مسلمانوں کو آدھار کارڈ جیسے بعض دستاویزات دستیاب نہ ہونے پر رفیوجی ؍ پناہ گزین قرار دیتے ہوئے حراستی مراکز میں ڈالا جارہا ہے۔ اس بیجا عمل کے تحت آسام میں ’حقیقی‘ شہریوں کی قطعی فہرست 31 اگست 2019ء کو جاری ہوگی۔ اندیشہ ہے کہ کئی مسلمانوں کو اسی طرح حراستی مراکز میں رکھا جائے گا جس طرح چین، اسرائیل اور امریکہ کرتے رہے ہیں۔ مزید تشویشناک پہلو یہ ہے کہ مودی حکومت این آر سی کو ملک گیر سطح پر توسیع دینے کا خطرناک منصوبہ رکھتی ہے۔ چنانچہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے تمام ریاستوں اور مرکزی زیرانتظام علاقوں میں ’ڈیٹنشن سنٹرز‘ کے قیام کیلئے ہدایت جاری کردی ہے۔
یونیفارم سیول کوڈ بی جے پی کا دیرینہ خواب رہا ہے اور طویل عرصے سے ان کے ایجنڈے میں ہے، جسے وہ سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے آشکار اور پوشیدہ کرتے رہے ہیں۔ اب لوک سبھا میں بھاری اکثریت اور راجیہ سبھا میں نت نئے پینتروں کے ذریعے کمزور اپوزیشن کو بکھیرتے ہوئے جس طرح مودی حکومت دھڑا دھڑ بل پاس کراتے جارہی ہے، وہ صاف طور پر اشارہ ہے کہ ایک سال میں جب بی جے پی کو راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل ہوگی، تو پھر یکساں سیول کوڈ جیسے نہایت پیچیدہ اور سکیولر انڈیا کے سماجی تانے بانے کو ستیاناس کرنے والے قانون بھی بن جائیں گے (خدا نہ کرے)۔ یونیفام سیول کوڈ دستورِ ہند میں بنیادی تبدیلی ہے، اس لئے یہ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ بی جے پی کو اس موقف کا بے صبری سے انتظار ہے۔ ایسے کوڈ کے تحت اسکولوں میں یوگا اور وندے ماترم لازمی کیا جاسکتا ہے، کثرتِ ازواج اور بچوں کی تعداد پر تحدید عائد ہوسکتی ہے۔ مزید کئی دفعات لاگو کی جاسکتی ہیں، جن سے اکثریتی برادری کو فرق نہ پڑے گا، مگر وہ مسلمانوں اور بعض دیگر اقلیتوں کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتیں۔
آر ایس ایس، بی جے پی اور مودی حکومت کیلئے ایک اور دیرینہ خواب اور خاص ایجنڈہ کشمیر ہے، جو زائد از 70 سال سے حکومت ہند کے تسلط میں ہے، اب وہ اسے سیاسی پہلو کے ساتھ ہر طرح سے اپنی مٹھی میں کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا منصوبہ ہے کہ جموں و کشمیر کا مسلم اکثریتی ریاست کا موقف ماند کردیا جائے، جس کیلئے وہاں غیرہندو آبادی کو بسانا ضروری ہے۔ اس معاملے میں سب سے بڑی رکاوٹیں آرٹیکل 370 (دستور کے پارٹ XXI کا حصہ) اور اسی کے تحت 35A ہے، جسے نہرو کابینہ کی سفارش پر صدرجمہوریہ راجیندر پرساد نے صدارتی حکمنامہ کے ذریعہ دستور میں شامل کیا تھا۔ آرٹیکل 370 جموں و کشمیر کو خصوصی خودمختاری کا درجہ عطا کرتا ہے جبکہ 35A سرحدی ریاست میں مستقل سکونت والے شہریوں کی تشریح کرتا ہے۔ کشمیر کا یہ معاملہ بھی یکساں سیول کوڈ جیسا پیچیدہ ہے لیکن پارلیمنٹ میں بی جے پی کو اکثریت اور بھرپور تعاون کرنے والے صدر کی موجودگی میں دستور سے چھیڑچھاڑ ناممکن نہیں۔
ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا مسئلہ مودی حکومت کیلئے ٹرمپ کارڈ؍ ترپ کا پتہ ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ وہ اسے جلد استعمال کرتے ہوئے ضائع کرنا چاہیں گے۔ بی جے پی کا ٹریک ریکارڈ ہے وہ اس کارڈ کو ہمیشہ الیکشن کے موقع پر کھیلنا پسند کرتی ہے۔ ابھی تو مودی 2.0 کی شروعات ہوئی ہے، مستقبل قریب میں مسلمانوں کو شاید رام مندر کے مسئلے میں نہیں اُلجھایا جائے گا۔ بہرحال جب بھی یہ مسئلہ سر پر آجائے، تب کیا کرنا چاہئے، اس کی نام نہاد سیاسی قیادت اور علماء کرام کو پیشگی تیاری کرلینا چاہئے، ورنہ وہ ایک اور پریشان کن مسئلے پر میدانِ حشر میں جوابدہ ہوں گے!
اب مسلمان کیا کریں؟
میں دنیوی طریقے اور تیاری سے قبل کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے حد اہم تاکید کو فراموش کردیا ہے، ہم نے قرآن و حدیث کی مضبوط رسی پر گرفت کمزور کردی یا پھر چھوڑ ہی دی ہے۔ اسلامی عمل سے دور ہوگئے ہیں، ایسا کرتے ہوئے ہم اللہ تعالیٰ کی مدد کے مستحق نہیں ہوسکتے۔ سب سے پہلے اوپر والے پر اپنا ایمان چٹان کی طرح مضبوط کریں، پھر نماز قائم کریں، اپنا علم و مال خرچ کرتے ہوئے بندوں کے حقوق ادا کریں… یہ یقین رکھیں کہ پھر بھی اللہ کی مدد نہیں آئے گی، ایسا ہو نہیں سکتا۔ ان شاء اللہ۔
ماب لنچنگ ، تین طلاق قانون سے لے کر دیگر کئی آزمائشوں میں اب مسلمان کیا کریں؟ اس سوال پر چند باتیں پیش کررہا ہوں۔ لنچنگ پر ہم کو بھی ڈھیٹ بننا پڑے گا، بھرپور دفاع کی تیاری کریں، اوپر والے پر بھروسہ کریں، ذہانت و ڈپلومیسی کا استعمال کریں، جنگ بدر کو یاد رکھیں، اپنا حوصلہ بڑھائیں، اس قدر کہ آپ کو چیلنج کرنے میں غیروں کو دس مرتبہ سوچنا پڑے۔ تین طلاق قانون کو اوپر والے کی طرف سے آزمائش اور ’شر میں خیر‘ سمجھیں، حکومتوں کو موقع ہی نہ دیں کہ وہ اس قانون کا شوہروں کے خلاف بیجا استعمال کریں، ہماری خواتین میں بیداری لائیں، اُن سے بیجا سلوک پہلے بھی غلط تھا اور اب اللہ واسطے مزید احتیاط کریں۔ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس کی توڑ کیلئے ہر فرد اپنے تمام سرکاری دستاویزات جلد از جلد حاصل کرلے، گھر میں ہر فرد کیلئے باضابطہ فائل بنائیں رکھیں، اپنے دستاویز میں جو بھی نقائص ہوں فوری درست کرالیں۔ ملک میں آنے والے اسمبلی انتخابات میں صرف فرقہ پرست بی جے پی اور اس کے حلیفوں کی شکست کیلئے انفرادی و اجتماعی طور پر جو بھی بن پڑے جتن کریں۔ یونیفارم سیول کوڈ، کشمیر اور رام مندر کے مسائل ’دلی دور است‘ جیسے ہیں۔ آئندہ بات ہوگی۔ ان شاء اللہ۔
[email protected]