آنکھوں میں ہے کچھ دل میں ہے کچھ ، ہونٹوں پہ کچھ ہے

,

   

کشمیر … جمہوریت اور انسانیت کا نعرہ بھول گئے
گجرات … تشدد بھی انصاف بن گیا
رشیدالدین

’’اس رنگ بدلتی دنیا میں انسان کی نیت ٹھیک نہیں‘‘ قدیم فلمی نغمہ کا یہ بول آج کے سیاستدانوں پر صادق آتا ہے۔ یوں تو سیاستداں رنگ بدلنے میں مہارت رکھتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کی اس عادت نے عیب کو خوبی میں تبدیل کردیا ہے۔ موقع پرستی اور وقت اور حالات کے اعتبار سے خود کو ڈھال لینا اگرچہ آسان کام نہیں ہے لیکن بعض قائدین اس فن کے ماہر استاد کا مقام حاصل کرچکے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو 8 سالہ اداکاری پر دادا صاحب پھالکے تو کیا ، آسکر ایوارڈ بھی دیا جائے تو ان کی صلاحیتوں کے آگے معمولی دکھائی دے گا۔ جس علاقہ کو جاتے ہیں، اسی رنگ میں ڈھل جاتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں جیسے یہی آبائی مقام ہو ۔ جس فرقہ یا طبقہ کے افراد سے ملاقات کرتے ہیں تو اپنی مذہبی معلومات کا بھرپور مظاہرہ ہوتا ہے۔ یہ عادت زیادہ دن تک کامیاب نہیں کرسکتی لیکن ہر کسی کو وقتی فائدہ کی فکر ہے۔ جموں و کشمیر کے ریاست کے موقف اور دفعہ 370 کی برخواستگی کے بعد بی جے پی وادی میں اقتدار کا خواب دیکھ رہی ہے ۔ اسمبلی حلقہ جات کی از سر نو حد بندی کی گئی اور مسلم اکثریتی حلقہ جات کی تعداد کم کرنے کیلئے فہرست رائے دہندگان میں غیر کشمیری افراد کا اضافہ کیا گیا۔ کشمیری عوام کا دل جیتنے کیلئے وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے ایک سے زائد مرتبہ وادی کا دورہ کیا۔ خصوصی موقف کی برخواستگی کے ذریعہ جس طرح کشمیریوں کی شناخت کو نشانہ بنایا گیا، ان زخموں کو مندمل کرنا آسان نہیں ہے ۔ 370 کی برخواستگی کو تین سال مکمل ہوگئے لیکن آج تک کشمیر میں حالات نارمل نہیں ہوئے ۔ کئی سرکردہ سیاسی اور مذہبی قائدین آج تک گھروں یا جیلوں میں محروس ہیں۔ میر واعظ مولوی فاروق کو جمعہ کی امامت اور خطبہ کی اجازت نہیں ہے۔ ان حالات میں امیت شاہ نے کشمیر کا دورہ کرتے ہوئے پاکستان کے بجائے کشمیری عوام سے بات چیت کا اعلان کیا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور عوام کے جان و مال ، عزت و آبرو کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مرکز میں 8 سالہ اقتدار کے دوران مودی حکومت کو کشمیری عوام اور ان کے نمائندہ قائدین سے مشاورت کا خیال نہیں آیا۔ اسمبلی انتخابات سے قبل کانوں کو خوش کرنے والے بیانات کی روایت نئی نہیں ہے۔ اگست 2018 ء میں نریندر مودی نے کشمیر کے بارے میں اٹل بہاری واجپائی کے جمہوریت ، کشمیریت اور انسانیت کے نعرہ کو یاد کیا اور کہا کہ حکومت واجپائی کے راستہ پر گامزن ہے۔ جمہوریت ، کشمیریت اور انسانیت میں سے کسی ایک کا بھی وجود باقی نہیں رہا۔ صرف طاقت کے ذریعہ عوامی جذبات کو کچلنے کی کوششیں دیرپا اثر انداز نہیں ہوسکتیں۔ اگر 8 برسوں میں کشمیری قیادت اور عوام سے بات چیت کی جاتی تو صورتحال بدل سکتی تھی۔ صرف کشمیر کے دورہ کے موقع پر بات چیت کا شوشہ محض زبانی ہمدردی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کشمیر کے بارے میں نہ ہی جمہوریت کا خیال رہا اور نہ کشمیریت کے تحفظ کے ذریعہ کشمیریوں کی شناخت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ دنیا کو کشمیر کے بارے میں بھلے ہی رنگ آمیزی کے ساتھ تصویر دکھائی جائے لیکن زمینی حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ کشمیر کے بارہمولہ میں ریالی سے خطاب کے دوران امیت شاہ نے اذان کے احترام میں تقریر کو روک دیا ۔ گودی میڈیا اور بی جے پی سوشیل میڈیا نے اسے تمام مذاہب کے احترام کے طور پر پیش کیا۔ کشمیر میں اذان کا احترام دراصل امیت شاہ کی مجبوری ہے اور اگر واقعی اذان کا احترام ملحوظ ہو تو کسی اور ریاست میں اس کا مظاہرہ کریں۔ کشمیر میں تو اذان کا احترام لیکن بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں لاؤڈ اسپیکر میں اذان پر پابندی عائد کی جارہی ہے ۔ مساجد کے خلاف مہم زوروں پر ہے اور کئی تاریخی مساجد پر مندر ہونے کی دعویداری پیش کردی گئی۔ بی جے پی اقتدار میں حوصلے اس قدر بلند ہیں کہ مساجد میں جبراً گھس کر پوجا پاٹ کی کوشش کی گئی ۔ ایودھیا کے بعد کاشی اور متھرا پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ تاج محل اور قطب مینار بھی جارحانہ فرقہ پرست عناصر کو مندر دکھائی دینے لگیں۔ دینی مدارس پر دہشت گردی کا الزام عائد کرتے ہوئے بلڈوزر چلائے گئے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ بیدر ، کرناٹک کے تاریخی مدرسہ محمود گاواں میں زبردستی گھس کر پوجا کی کوشش کی گئی ۔ یہ تمام سرگرمیاں مرکزی وزارت داخلہ کے تحت آتی ہیں لیکن امیت شاہ نے کسی بھی معاملہ میں کارروائی کی ہدایت نہیں دی لیکن کشمیر میں اذان کے احترام کے نام پر معصوم عوام کو بی جے پی سے قریب کرنے کا منصوبہ ہے۔ کشمیر میں ووٹ حاصل کرنے کیلئے اذان کے احترام کے بجائے بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کی حکومتوں کو مساجد اور مدارس کے خلاف کارروائی سے باز رہنے کی ہدایت دی جائے۔ علاقہ ، عوام اور محل وقوع اور سیاسی حالات کے اعتبار سے انصاف کے اصول اور تقاضہ تبدیل ہوتے رہیں تو اسے منصفانہ حکومت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کشمیری عوام کو جمہوریت ، کشمیریت اور انسانیت کے اصولوں پر عمل آوری کا انتظار ہے۔ دنیا نے نریندر مودی کی زبان سے ان الفاظ کو بھی سنا تھا کہ بندوق کی گولی کے بجائے میٹھی بولی سے کشمیریوں کا دل جیتنے کی کوشش کی جائے گی۔ کیا مودی حکومت کی کشمیر پالیسی میٹھی بولی ، جمہوریت ، کشمیریت اور انسانیت پر مبنی ہے ؟ خصوصی موقف کی برخواستگی کے ذریعہ کشمیریوں کی شناخت کو ختم کرنے کی سازش کی گئی ۔ جلسہ عام میں چند منٹ کے لئے تقریر کو روک دینا اذان کا احترام نہیں کہلاتا۔ احترام دکھاوے سے نہیں دل سے ثابت کیا جائے ۔ یوں تو نریندر مودی بھی بہار میں اذان کے وقت اپنی تقریر کو روک چکے ہیں لیکن ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور جارحیت پر وہ خاموش رہے۔ امیت شاہ نے کشمیر میں فاروق عبداللہ ، مفتی سعید اور نہرو۔گاندھی خاندان کو نشانہ بنایا لیکن غلام نبی آزاد اور ان کی پارٹی کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ یہ ہمدردی بہت کچھ بیان کر رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی خود چاہتی ہے کہ غلام نبی آزاد چیف منسٹرکے عہدہ پر فائز ہوں کیونکہ انہوں نے دفعہ 370 کی بحالی کو ایجنڈہ میں شامل نہیں کیا ہے ۔ مفتی سعید ، فاروق عبداللہ اور نہرو۔گاندھی خاندان کو کمزور کرتے ہوئے غلام نبی آزاد کے ذریعہ خفیہ ایجنڈہ پر عمل کیا جائے گا ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ آزاد بھی مرکز اور بی جے پی پر تنقید سے بچ رہے ہیں۔ آخر کب تک کشمیری عوام کا استحصال ہوگا۔
امیت شاہ نے کشمیر میں اذان کا احترام کیا لیکن ان کی ریاست گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ پولیس نے غیر انسانی سلوک کیا۔ نوراتری کی تقریب میں پتھراؤ کے الزام کے تحت مسلم نوجوانوں کو پولیس نے کھمبے سے باندھ کر لاٹھیوں سے بری طرح پیٹا۔ جرم بھلے ہی کچھ ہو لیکن پولیس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود عدالت بن کر سزا دینے لگیں۔ عوام کے درمیان مسلم نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور تماش بین گروہ کی جانب سے قابل اعتراض نعرے لگائے جارہے تھے۔ یہ نعرے دراصل پولیس کے حوصلوں کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کیلئے تھے۔ اس واقعہ پر گجرات سے تعلق رکھنے والے نریندر مودی اور امیت شاہ نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ گجرات ملک میں مسلمانوں پر مظالم کے لئے بدنام ہے اور تازہ ترین واقعہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ظلم اور تشدد مسلمانوں کے لئے انصاف کا دوسرا نام ہے۔ جب انصاف کے اصول تبدیل ہوجائیں تو پھر پولیس اور قانون پر بھروسہ کون کرے گا۔ انصاف رسانی کا طریقہ سڑک پر سزا دینا نہیں بلکہ عدالت میں پیش کرنا ہے۔ بی جے پی کی حکمرانی میں انصاف رسانی قوم اور مذہب کی شناخت کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے ۔ اس واقعہ کی ڈائرکٹر جنرل پولیس نے تحقیقات کی ہدایت ضرور دی ہے لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ وائرل ویڈیو کی بنیاد پر خاطی پولیس والوں کو فی الفور برطرف کیا جاتا ۔ بی جے پی ریاستوں میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت دعویٰ کر رہے ہیں کہ آر ایس ایس سے اقلیتوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ حکومت ہو یا آر ایس ایس دونوں کے قول اور فعل میں تضاد پھر ایک مرتبہ آشکار ہوچکا ہے ۔ آر ایس ایس سربراہ نے 8 برسوں میں مسلمانوں پر ظلم و تشدد ، مساجد اور گھروں پر بلڈوزر کارروائیاں ماب لنچنگ پر کبھی آواز نہیں اٹھائی۔ اگر آر ایس ایس سے اقلیتوں کو خطرہ نہیں تو پھر کس سے خطرہ ہے ؟ اس کی وضاحت بھی موہن بھاگوت کو کرنی چاہئے ۔ بھاگوت کو عمیر الیاسی جیسے مسلمانوں کی ضرورت ہے جو انہیں بابائے قوم کے خطاب سے نوازیں۔ امیت شاہ ہوں کہ موہن بھاگوت ، ان کی مسلمانوں کے ساتھ ہمدردیاں محض زبانی ہیں اور انہیں اپنی سنجیدگی ثابت کرنے کیلئے مسلمانوں کے تحفظ اور ترقی کے لئے سنحیدہ قدم اٹھانے ہوں گے۔ راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
آنکھوں میں ہے کچھ دل میں ہے کچھ ، ہونٹوں پہ کچھ ہے
یوں بول رہے ہو تو کسی اور سے بولو