آٹوموبائل اور ٹکسٹائل میں جابس کیوں نہیں؟

   

رویش کمار
’ماروتی‘ کمپنی کے گاڑیوں کی فروختمیں سات سال میں پہلی مرتبہ 22 فیصد گراوٹ آئی ہے۔ یہ انحطاط لگاتار تیسرے ماہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ماروتی ، کار بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ ماروتی کے علاوہ کئی سرکردہ کار کمپنیوں کی حالت بھی ناقص ہے۔ آٹوموبائل سیکٹر کو ہنوز روزگار کا شعبہ سمجھا جاتا ہے۔ بے شک، جابس پر اثر پڑسکتا ہے۔ نوکریاں چلی جائیں گی۔ ایک استدلال ہوسکتا ہے کہ ماروتی کے پراڈکٹس اب مسابقت سے قاصر ہوگئے ہیں۔ لوگ انھیں نہیں خرید رہے ہیں۔ اس طرح کی دلیلیں دی جاتی ہیں لیکن مہندرا اینڈ مہندرا، ٹاٹا اور ہونڈا کاروں کی فروختوں میں بھی گراوٹ آئی ہے۔ ان چار کمپنیوں کی جملہ فروخت میں گزشتہ سال کے مقابل 20 فیصد کمی ہوئی ہے۔ کیا عوام کی معاشی سکت کمزور ہورہی ہے؟
اس پس منظر میں کتنے لوگوں کو جابس ملے گا، ہمیں فی الحال کوئی آئیڈیا نہیں یا بزنس رپورٹس میں اس بارے میں کوئی اعداد و شمار ہوسکتے ہیں۔ آٹوموبائل سیکٹر میں روبوٹک آٹومیشن کا عمل بڑھتا جارہا ہے۔ اگر پبلک ٹرانسپورٹ بہتر ہے اور کاروں کی فروخت کمتر ہوگی تو فی الحال کوئی چارہ نہیں اور کوئی متبادل نہ ہوگا۔ چونکہ کاروں کی فروخت میں کمی آرہی ہے، اس لئے ایسی صورتحال کا ہماری معیشت پر اثر پڑنا لازمی ہے۔ جٹ ایرویز کے ہزاروں ملازمین کو بحران کا آگھیرا ہے، لیکن اب ان کا جاب ختم ہوگیا۔ ایک ملازم نے خودکشی بھی کرلی۔
یہ اچھی بات ہے کہ 2019ء الیکشن میں جاب کا مسئلہ ہی ختم ہوگیا۔ یہ حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔ اس کا سردرد ختم ہوچکا ہے۔ جابس نہ دینا اور جاب چھوڑنا شاید کوئی سیاسی مسئلہ نہ ہو لیکن حکومت جی ڈی پی میں گراوٹ ہرگز پسند نہیں کرے گی۔ اکثر وہ جی ڈی پی کے اعداد وشمار کو روشن رکھنا چاہتے ہیں جیسے مور کا تاج چمکتا ہوتا ہے۔ آٹوموبائل سیکٹر میں گراوٹ حکومت کیلئے تشویش کا سبب بن سکتی ہے۔
چند روز قبل ’بزنس اسٹانڈرڈ‘ میں شائع اداریہ میں بتایا گیا کہ پارچہ جات کا شعبہ بہتر ہونے لگا ہے۔ ویسے رفتار دھیمی ہے اور سمت بھی کچھ اسی طرح ہے۔ تاہم، شبھانا چکرورتی کی حالیہ رپورٹ میں کچھ اور ہی کہا گیا ہے۔ ٹکسٹائل سیکٹر کو بھی ملازمتوں والا شعبہ سمجھا جاتا ہے۔ حکومت نے کئی طرح بہتری لانے کی کوشش کی تاکہ ٹکسٹائل سیکٹر بدلتے وقت کے ساتھ رفتار قائم رکھ سکے۔ گزشتہ تین سال میں ٹکسٹائل سیکٹر کی اکسپورٹ میں کمی آئی اور امپورٹ میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے اس شعبے میں نئی جان ڈالنے کیلئے 6,000 کروڑ روپئے کا پیاکیج دیا تھا اور 10 ملین جابس پیدا کرنے کا نشانہ مقرر کیا تھا۔ اس شعبے میں روزگار تلاش کرنے کا کوئی ٹھوس انتظام نہیں ہے، اور عام رائے یہی ہے کہ روزگار نہیں پیدا کیا جارہا ہے۔ ٹکسٹائل اور آٹوموبائل کے دو بڑے شعبوں کی حالت اچھی نہیں ہے۔تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ متواتر تیسرے ماہ جی ایس ٹی کلکشن زائد از ایک لاکھ کروڑ روپئے رہا ہے۔ ایسا کہا جارہا ہے کہ جی ایس ٹی سسٹم میں اب استحکام پیدا ہورہا ہے۔ لوگوں نے اسے سمجھنا شروع کیا ہے اور وہ اسے بہتر طور پر استعمال کرنے لگے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بجٹ 2019-20ء میں مقررہ ٹارگٹ حاصل نہیں کیا جاسکا ہے۔ بہت بڑا فرق نہیں ہے۔ صرف 9 فیصد کم ہے۔ بہرحال یہ اوپر اور نیچے ہوتا رہے گا۔
ravish@ndtv.com