سیمی فائنل 2023 … دلوں کی دھڑکن تیز
راہول اور پرینکا کی دھوم … مودی تنہا ہوگئے
رشیدالدین
’’سیمی فائنل 2023 ‘‘ کے تحت تین ریاستوں کے اسمبلی چناؤ کا مرحلہ مکمل ہوگیا۔ چھتیس گڑھ ، مدھیہ پردیش اور میزورم کی حکومتوں کے بارے میں عوام کا فیصلہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں ہوچکا ہے۔ باقی دو ریاستوں راجستھان اور تلنگانہ کے رائے دہندے 23 اور 30 نومبر کو فیصلہ سنائیں گے۔ سیمی فائنل کے نتائج کا 3 ڈسمبر کو اعلان ہوگا اور نئے سال 2024 ء سے قومی سطح پر نئی سیاسی صف بندیوں کے ذریعہ فائنل کی تیاری شروع ہوگی۔ میزورم کو چھوڑ کر 4 ریاستوں کے چناؤ کا سیمی فائنل اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ بیک وقت بی جے پی کانگریس اور بی آر ایس کی عوامی مقبولیت کا فیصلہ ہوجائے گا۔ بی جے پی گزشتہ 10 برسوں سے مرکز میں برسر اقتدار ہے اور مدھیہ پردیش اس کے لئے ایسڈ ٹسٹ ہے۔ بی جے پی کے خلاف انڈیا اتحاد کی قیادت کرنے والی کانگریس کو راجستھان اور چھتیس گڑھ میں حکومتوں کو بچانا ہے ۔ اگر دونوں ریاستوں میں کانگریس اقتدار میں برقرار رہتی ہے تو انڈیا اتحاد کے فائنل میں بہتر مظاہرہ کا امکان رہے گا۔ اگر مدھیہ پردیش کو بی جے پی سے چھیننے میں کامیابی ملے تو یہ کانگریس کیلئے لوک سبھا چناؤ میں کامیابی کی خوشخبری رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا اتحاد میں شامل پارٹیوں کی نتائج پر نظر ہے۔ بی جے پی اور کانگریس کا تین ریاستوں میں راست ٹکراؤ ہے جبکہ تلنگانہ میں کے سی آر کرو یا مرو کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ بی آر ایس بظاہر تیسرے محاذ کی حامی ہے لیکن مرکز میں جو پارٹی برسر اقتدار آئے گی وہ اسی کے ساتھ جاسکتی ہے لیکن یہ اسی وقت ہوگا جب تلنگانہ میں کے سی آر کا اقتدار بچ جائے۔ موجودہ حالات میں سروے رپورٹس کی بنیاد پر بی جے پی اور بی آر ایس کے لئے اچھی خبر نہیں ہے۔ کانگریس پارٹی اگر مدھیہ پردیش بی جے پی سے چھین لیتی ہے تو راجستھان میں بی جے پی مدھیہ پردیش کا بدلہ لے کر اسکور برابر کرسکتی ہے۔ اگر راجستھان کو برقرار رکھنے میں کانگریس کامیاب ہوجائے تو سیمی فائنل سے بی جے پی عملاً خارج ہوجائے گی اور تلنگانہ کی شکل میں کانگریس کو بونس پوائنٹس مل جائیں گے ۔ الغرض چار ریاستوں کے نتائج عام انتخابات 2024 ء کا ایجنڈہ طئے کریں گے۔ چھتیس گڑھ میں عوام بگھیل حکومت کی کارکردگی سے مطمئن دکھائی دے رہے ہیں اور انہیں دوسری میعاد تقریباً یقینی ہے۔ مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوان اور راجستھان میں اشوک گہلوٹ کو عوامی ناراضگی کا سامنا ہے۔ مدھیہ پردیش تو بی جے پی کے ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے لیکن راجستھان کے سنگھاسن کیلئے کانگریس اور بی جے پی میں کانٹے کی ٹکر ہے۔ کانگریس اتنی آسانی سے اقتدار حوالے نہیں کرے گی۔ بی جے پی اپنی ایک ریاست سے محروم ہوتی ہے تو اس کا اثر نہ صرف این ڈی اے بلکہ بی جے پی کے داخلی حالات پر پڑے گا۔ کرناٹک میں اقتدار سے محرومی کے بعد بی جے پی حلقوں میں مودی میجک کے بارے میں چے مہ گوئیاں شروع ہوچکی ہیں۔ کانگریس نے کرناٹک اور اروناچل پردیش میں کامیابی کے ذریعہ اچھی شروعات کی ہے اور اگر چار ریاستوں پر کانگریس پرچم لہراتا ہے تو مرکز میں اقتدار کی ضمانت بن سکتا ہے۔ بی جے پی کی انتخابی مہم کے اسٹار کیمپینرس میں مودی۔امیت شاہ جوڑی کمزور پڑچکی ہے۔ مودی چار ریاستوں میں انتخابی مہم کا بوجھ اپنے کمزور کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ عام طور پر مودی ۔ امیت شاہ جوڑی کے ساتھ قومی صدر جے پی نڈا ریالیوں سے خطاب کرتے رہے ہیں لیکن چار ریاستوں میں جے پی نڈا کا رول برائے نام ہے۔ امیت شاہ بھی پہلے کی طرح سرگرم ، چست اور چاق و چوبند نہیں ہیں۔ بی جے پی میں چانکیہ کی طرح شناخت رکھنے والے امیت شاہ کے وہ جارحانہ تیور نہیں رہے جس کیلئے وہ شہرت رکھتے ہیں۔ امیت شاہ کی صحت کے بارے میں مختلف اطلاعات گشت کر رہی ہیں۔ حقیقت بھلے ہی کچھ ہو لیکن اتنا ضرور ہے کہ امیت شاہ کے بارے میں کچھ تو چھپایا جارہا ہے۔ صحت کا معاملہ ہے یا پھر پارٹی کے داخلی اختلافات۔ امیت شاہ نے بعض انتخابی ریالیوں سے خطاب ضرور کیا لیکن وہ روایتی رنگ میں نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی نے سارا بوجھ اپنے پر مسلط کرلیا ہے لیکن وہ کافی تھک چکے ہیں جس کا اظہار ان کی تقاریر سے ہورہا ہے۔ آخر کب تک بی جے پی کی ارتھی کو مودی تنہا اٹھا پائیں گے۔ بی جے پی کا یہ المیہ ہے یا پھر گجرات جوڑی کا منصوبہ کہ سکنڈ گریڈ لیڈرشپ کو تیار نہیں کیا گیا۔ مودی اور امیت شاہ اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور ان کی مقبولیت میں کمی سے پارٹی میں قیادت کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس میں ایک بھی لیڈر ایسا نہیں جو مودی ۔ امیت شاہ کا متبادل بن سکے۔ قیادت کا یہ خلاء لوک سبھا انتخابات میں شدت سے محسوس کیا جائے گا ۔ اٹل بہاری واجپائی ، ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی نے اپنے جانشینوں کے طور پر سشما سوراج ، پرمود مہاجن ، ارون جیٹلی ، نریندر مودی اور امیت شاہ کو تیار کیا تھا لیکن ان میں سے مودی اور امیت شاہ بقید حیات ہیں لیکن طبعی عمر کے اس حصہ میں تقاریر میں جوش اور ولولہ باقی نہیں رہا۔ عوام کے دلوں میں جادوئی اثر کرنے والی تقاریر سنائی نہیں دے رہی ہیں۔ ہندوتوا چہرہ کے طور پر یوگی ادتیہ ناتھ ہیں لیکن وہ وزارت عظمیٰ کے دعویدار کے طور پر نہ صرف بی جے پی بلکہ این ڈی اے کی حلیف جماعتوں کیلئے قابل قبول نہیں بن سکتے۔
اسمبلی انتخابات کی مہم میں نریندر مودی کا راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی سے راست مقابلہ ہے۔ کانگریس پارٹی نے چار ریاستوں میں اپنی طاقت جھونک دی ہے اور بھائی بہن کی یہ جوڑی کانگریس کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ نریندر مودی نے مہم کی ابتداء میں مرکزی حکومت کے کارناموں کو پیش کیا تھا لیکن آخری دنوں میں فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو اختیار کرلیا۔ مودی کو شائد یہ احساس ہوچکا ہے کہ ملک میں عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ گزشتہ دو انتخابات میں یہی کچھ کیا گیا لیکن ملک کے رائے دہندے باشعور ہوچکے ہیں اور وہ مذہبی ایجنڈہ کو مزید قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ نریندر مودی نے ایک طرف مذہبی ایجنڈہ اختیار کیا تو دوسری طرف کانگریس کے اسٹار کیمپینر راہول گاندھی کے خلاف غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کرتے ہوئے اپنی بوکھلاہٹ کا ثبوت دیا ہے۔ بھوپال میں ریالی سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے راہول گاندھی کو ’’مورکھوں کا سردار‘‘ قرار دیا۔ وزیراعظم کے عہدہ پر فائز شخص کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپوزیشن قائدین کے خلاف گھٹیا زبان کا استعمال کریں۔ نریندر مودی دراصل بی جے پی کی شکست کے خوف سے خود پر قابو کھوچکے ہیں۔ ان کی تقاریر میں تسلسل باقی نہیں رہا اور بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود نہیں جانتے کہ عوام سے کیا کہنا چاہتے ہیں۔ رام مندر کی تعمیر اور کشمیر سے دفعہ 370 کی برخواستگی کو کارنامہ کے طور پر عوام میں پیش کر رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے رائے دہندوں کو مقامی سطح پر ترقی اور فلاح و بہبود کی اسکیمات چاہئے ۔ انہیں قومی اور فرقہ وارانہ مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کی دھواں دھار مہم نے بی جے پی قائدین کی دلوں کی دھڑکن تیز کردی ہے۔ نریندر مودی انتخابی مہم میں تنہا ہوچکے ہیں اور وہ انتخابی مہم کا بوجھ زیادہ دنوں تک برداشت نہیں کرپائیں گے۔ کانگریس کی انتخابی مہم میں پرینکا گاندھی کی شمولیت کے بعد سے ملک بھر میں کانگریس کے اچھے دن واپس آچکے ہیں۔ راہول گاندھی سے زیادہ پرینکا عوام میں مقبول ہیں ، اس کی وجہ ان کا اپنی دادی آنجہانی اندرا گاندھی کا ہم شکل ہونا اور تقریر کا انداز ہے۔ بی جے پی کو لوک سبھا چناؤ میں پرینکا گاندھی ایک خطرہ محسوس ہورہی ہیں۔ سونیا گاندھی کی ناسازیٔ صحت کے بعد بھائی اور بہن نے پارٹی کی انتخابی مہم کی کمان سنبھال لی ہے۔ کرناٹک اور اروناچل پردیش میں راہول گاندھی اور پرینکا کی مہم نے پارٹی کو دوبارہ اقتدار عطا کیا ہے۔ ملک بھر میں کانگریس قائدین اور کیڈر کے حوصلے بلند ہیں اور وہ پرامید ہیں کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس زیر قیادت این ڈی اے اتحاد کی حکومت تشکیل پائے گی۔ نریندر مودی کی الزام تراشیاں اور کانگریس قائدین کے خلاف غیر پارلیمانی الفاظ کا استعمال عوام کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہے ۔ سیاستدانوں کے لئے منظر بھوپالی نے یہ پیام دیا ہے ؎
اب اگر عظمت کردار بھی گر جائے گی
آپ کے سر سے یہ دستار بھی گرجائے گی