ابھئے کمار
دہلی فسادات کی آگ بْجھ تو گئی ہے، مگر لوگوں کے دل اب بھی سلگ رہے ہیں۔شمالی مشرقی دہلی میں جھلسے اور جلے ہوئے گھر اور بکھری ہوئی راکھ سرکار اور پولیس کی بے حسی اور بربریت کازندہ گواہ ہے۔صرف اقتدار میں بنے رہنے کے لیے”راج دھرم ” کا قتل کیا گیا۔کرسی کی خاطرمعصوموں کا خون بہایا گیا۔جب اسلحہ تھامے بلوائی ان کے جسموں کو کاٹ اور پیٹ رہے تھے،عین اس وقت ملک کی ہزاروں سالوں کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مشترکہ وراثت کے تانے بانے بھی تار تار ہو رہے تھے۔
دہلی کی سڑکوں پر کئی دنوں تک قانوں کی بالادستی کی جگہ نفرت کا راج قائم تھا۔ ایسی نفرت جس نے فسادیوںکے دلوں کو پتھر سے بھی سخت بنا دہاتھا۔انسانیت اور اخوت کی جگہ درندگی سر پر جنوں بن کر طاری تھی۔ قانوں کے محافظ ایک خاص فرقے کو سبق سکھلانے کے لیے سڑکوں پر اترے ہوئے تھے۔ جن علاقوں میں بے سہاروں کے گھر، دکان، مذہبی مقام جلائے جا رہے تھے، وہاں پولیس جان بوچھ کر غائب تھی۔لوگ مدد کے لیے چیخ رہے تھے اور پولیس کچھ بھی سننے کو تیار نہیں تھی۔اگر پولیس کسی کی مددگار تھی تو وہ دنگائیوں کی تھی۔دہلی کی سڑکوں پر پولیس کی ڈھٹائی دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس ملک میں قانون کاراج نہیں بلکہ لا قانونیت کا راج چل رہا ہے۔جنہوں نے قانوں اور آئیں کے تحفظ کی قسمیں کھائی تھیں، وہ ہندوتوا کے پیروکار نظر آرہے تھے۔پولیس قانوں کی نہیں بلکہ ایک خاص سیاسی جماعت کے اشاروں پر ناچ رہی تھی۔ملک کی راجدھانی دہلی ان دنوںلا قانونیت اور حیوانیت کا مرکز بنی رہی۔
تبھی توپولیس فیضان کو سڑک پر چت کر کے پیٹ رہی تھیں۔وہ چیخ رہا تھا۔مگر خاکی وردی والوں کو اس پر ذرا بھی رحم نہیں آیا۔مار مار کر فیصان کو انہوں نے نیم جان کر ڈالا۔ تب بھی ان کے دل کی پیاس نہیں بجھی۔پھیر نیم جان کی حالت میں پولیس نے اس سے کہا کہ وہ قومی ترانہ گائے۔قومی ترانہ کے بہانے ایک مسلمان کو یہ احساس دلایا جارہا تھا کہ وہ اس ملک میں برابر کا شہری نہیں ہے۔
قومی شاعر ٹیگور نے کبھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ ان کے لکھے ہوئے ترانے کا استعمال اس قدر ہوگا۔بھلے ہی ان کے قلم سے نکلی نظم دو ملکوں کے قومی ترانے کی حیثیت رکھتے ہیں،ایسا عزازجو دنیا کے کسی دیگر شاعر کو حاصل نہیں ہے،مگر ان کے نزدیک انسانیت کا درجہ قومیت کی تنگ نظری سے کہیں بڑا ہے۔جب پولیس اسے مار مار کر یہ کہہ رہی تھی کہ وہ’’جن گن من‘‘ گائے، تو یہ مارنہ صرف فیضان محسوس کر رہا تھا، بلکہ اس کا درد ٹیگور کو بھی ہوا ہوگا۔اگر ٹیگور کو یہ معلوم ہوتا کہ قومیت کے نام نہاد ’’پاسباں‘‘اگے چل کر اْن کے لکھے گئے ترانے کی دْھن بجا کر معصوموں کی جان لیں گے تو وہ اسے کبھی قلم بند نہیں کرتے۔
ان دنوں بے حسی ایسی طاری تھی کہ لوگ مارے جا رہے تھے اور ہمارے حکمرانوں کو اس سے زیادہ فرق نہیں پڑ رہا تھا۔کچھ تو ایسے بھی تھے جن کو دہلی کی کمان جنتا نے حال کے دنوں میں تھما دی تھی۔مگر جب عام جنتا مر رہی تھی، تو جناب راج گھاٹ جا کر امن کے لیے دعا کر رہے تھے۔ دوسرے حکام بھی ان سے بہتر نہیں تھے۔میڈیا کا ایک بڑا حصہ یا تو فسادیوں کو بچاتا رہا یا پھر خاموش رہا اور اسے’’دو گروپوں کے درمان تصادم‘‘ بتا کر سچ کو بیاں کرنے سے بھاگتا رہا۔
مجموعی طور پر جب دہلی جل رہی تھی، تو اقتدار کے گلیاروں میں اورمیڈل کلاس علاقوں میں سب کچھ’’نارمل‘‘ سا چل رہا تھا۔ہمارے حکمرانوں کی عیّاری دیکھی کہ جب کئی دنوں تک معصوم مدد کے لیے چیختے رہے، تب حکمرانوں کو ان سے کوئی ان سے محسوس نہیں ہوئی۔ مگر جب سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا تو وہ مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ دہلی کے حالات کو دیکھتے ہوئے وہ اس بار ہولی نہیں منائیں گے۔دنگے کی آگ بچھ گئی ہے، مگر ہر طرف قتل و غارت کھلا منظر دکھ رہا ہے۔گھر جلائے گئے ہیں۔ دکانیں جلائی گئی ہیں۔مذہبی مقامات جلائے گئے ہیں۔ اقلیتوں کے گھروں پر پتھر برسائے گئے ہیں۔ان کے سامان کو لوٹا گیا ہے۔جب لوٹ کر بھی دل نہ بھرا، تو اسے نذر آتش کر دیا گیا۔کسی طرح لوگ جان بچا کر بھاگے۔کچھ کامیاب ہوئے۔ کچھ دنگائیوں کے شکار ہوگئے۔ بچے یتیم ہوگئے۔ بہنوں کے سہاگ اورعصمت لوٹی گئی۔ سیکڑوں جسموں کو مجروح کر دیا گیا اور ہزاروں لوگ روزگار سے محروم ہو گئے۔دنگا تین سے چار دنوں تک چلتا رہا۔نہ پولیس آئی۔نہ کوئی سیاست داں مددکو پہنچا۔ نہ کسی افسر نے حال پوچھا۔ سر پر ہیلمٹ لگائے سیکڑوں دنگائی دور کے علاقوں سے بلائے گئے تھے، جو مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔ بہت سارے غیر مسلم پڑوسیوں نے مسلمانوں کی جان بچانے کی پوری کوشش کی مگر کئی بار ان کو بھی دھمکی دے کر بھگا دیا گیا۔آج بھی بہت سارے لوگ اپنے رشہ داروں کے یہاں پناہ لیے ہوئے ہیں اور اپنے گھروں کو واپس لوٹنے سے ڈر رہے ہیں۔
فسادیوں کے رگوں میں نفرت کا زہر ایسا گھول دیا گیا جاتا ہے کہ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی کسی نہ کسی کی اولاد ہیں اور ان کے پاس بھی اولاد ہیں۔وہ اگر یہ یاد کرتے کہ جب ان کے اپنوں پر معمولی سی چوٹ آپڑتی ہے تو وہ کس قدر بے چین ہو جاتے ہیں، تو شاید وہ کسی کا خون نہیں بہا پاتے۔ مگر ان کے اندر اس قدر اقلیت مخالف نفرت کھول دی گئی تھی کہ وہ انہیں’’مزہ چکھانے‘‘ کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کے لیے تیار تھے۔ یہ سب دیکھ کر پھر یقین کو گیا کہ دنگا ہوتا نہیں کرایا جاتا ہے۔ یہ ایک پیشہ بن گیا ہے۔
آج جن کو لگتا ہے کہ اقتدار کی بدولت وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں اور کسی جھوٹ کو سچ ثابت کر سکتے ہیں وہ یہ فراموش کر جاتے ہیں کہ ان سے پہلے کے حکمرانوں نے ایسی ہی کوشش کی تھی۔مگر کل کے حکمرانوں کو آج کے مورخوں نے خاطی قرار دیا ہے اور آج کے حکمرانوں کو کل کے مورخیں لعنت بھیجیں گے اور اْن کے نام ظالموں کی فہرست میں درج کیے جائیں گے۔آج کے حکمران یہ سمجھ پانے میں قاصر ہیں کہ وہ تنہا نہیں ہیں جنہیں نے اپنی حکومت کو معصوموں کی لاش پر کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی۔ تب بھی ان کے آس پاس بیٹھے منتری اور سنتری نے ان کے کارناموں کو واجب قراردے کرانہیں گمراہ کیا تھا۔ درباری شاعروں نے لوگوں کی چیخ اور پکار کو نظر انداز کر حاکموں کی ظلمتوں کے دور کو چمکتی روشنی کہا تھا۔ آج بھی کچھ نیا نہیں ہو رہا ہے۔
مگر زندگی بھی عجیب ہے۔اس پر جتنا ظلم کیا جائے وہ اس قدر سبز ہوتی جاتی ہے۔ نسل کشی کا ناپاک ارادہ رکھنے والوں کا انجام تاریخ میں بڑا برا ہوا ہے۔خون بہانے والے یہ اکثر فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ خون کا ایک قطرہ پھٹنے سے پہلے ہزار قطروںکو جنم دیتا ہے۔ معصوموں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔یہ ایک نئی امید لے کر آتا ہے۔یہ ایک نئی لال صبح کی بشارت دیتا ہے۔جب حکومت ساتھ نہ دے، جب پولیس اور انتظامیہ دْشمن جیسا سلوک کرنے لگے، جب بلوائیوں کو معصوموں اور اقلیتوں پر گالیاں، پتھر اور ڈنڈے برسانے کے لیے تیار کر دیا جائے، تب بھی زندگی پر زور طریقے سے مزاحمت جاری رکھتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں، جب ظلم بڑھ جاتا ہے، تو اس سے مقابلہ کرنے کی طاقت بھی بڑھ جاتی ہے۔یہ طاقت دہلی فسادات کے بعد بھی دکھ رہی ہے۔
مثال کے طور پر فسادات کے بعد راحت اور بازآبادکاری کا کام تیزی سے چل رہا ہے۔جے این یو کو ہی لے لیجیے۔یہاں کے مسلم اور محکوم طبقے کے طلبہ فساد متاثرین کے درمیان زبردست کام کر رہے ہے۔اْن کے کام کرنے کے جذبے کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ کوئی جنگ سے مقابلہ کر رہے ہوں۔کوئی راحت کے سامان کو پیک کر رہا ہوتا ہے، تو کوئی فون پر متاثرین سے بات کر ان کی ضرورت کی اشیا کے بارے میں جانکاری قلم بند کر رہا ہوتا ہے۔مدد اور راحت کا کام دیگر یونیورسٹیوں کے طلبہ بھی کر رہے ہیں۔ بہت سارے سیکولر، امبیڈکر پسند اور لیفٹ سے جڑی تنظیمیں بھی سر گرم عمل ہیں۔ دیگر مذہبی فرقے کے لوگ بھی مدد کے لیے سامنے آئے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر دل میں تکلیف بھی ہوتی ہیں اور خوشی بھی۔ تکلیف اس بات کی کہ اگر حکومت وقت نے ذرا سے بھی ایمانداری دکھائی ہوتی اور اور اپنے آئینی فریضہ کا خیال رکھا ہوتا تو ملک کی راجدھانی دہلی کو جلنے سے بچایا جاسکتا تھا۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ سرکار کسی بھی فساد کو نہ چاہے تو وہ پھیل ہی نہیں سکتا ہے۔
مگر خوشی اس بات سے ہوتی ہے کہ اتنی ظلم اور زیادتی کے بعد بھی ملک کا محکوم طبقہ اپنی ہمّت اور امیدکے ساتھ کام لے رہا ہے۔ وہ صبر اور تحمل کا دامن بھی زور سے پکڑے ہوئے ہیں۔ اس کے دل میں کسی کے لئے بھی نفرت نہیں ہے۔ مشکل کے لمحات میں،یہ لوگ امید کی ایک کرن ہیں۔
(ابھئے کمار جے این یو میں ریسرچ اسکالر ہیں۔)
[email protected]