ابو عاصم اعظمی …آخر کس جرم کی سزا؟
مساجد پر بلڈوزر … نفرت کا عروج ملک کیلئے نقصان دہ
رشیدالدین
ابو عاصم اعظمی کا قصور کیا ہے؟ جمہوریت، دستور اور قانون پر ایقان رکھنے والا ہر شخص ابو عاصم اعظمی کی مہاراشٹرا اسمبلی سے معطلی کی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے یہ سوال کررہا ہے کہ سماج وادی پارٹی قائد کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔ کیا حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ملک کی تاریخ بھی بدل جاتی ہے؟ اگر کسی نے مؤرخین کے حوالہ سے بعض تاریخی حقائق کا اظہار کیا تو اِس پر بھڑکنے کا کیا جواز ہے۔ مسلم حکمرانوں سے نفرت کے ماحول نے معاشرہ کو جس انداز میں زہر آلود بنادیا ہے، اُس کی مثال سابق میں نہیں ملتی۔ اورنگ زیب اور شیواجی میں جنگ مذہبی بنیادوں پر نہیں تھی بلکہ یہ خالص مملکت کو وسیع کرنے کی لڑائی تھی لیکن نفرت کے سوداگروں نے شیواجی کو ہندوتوا کی علامت اور اورنگ زیب کو ہندو اور ہندومت کے دشمن کے طور پر پیش کیا ہے۔ شیواجی کے نام پر زہر پھیلانے والے عناصر اِس حقیقت کو فراموش کس طرح کرسکتے ہیں کہ شیواجی کے کئی سپہ سالار مسلمان تھے۔ اورنگ زیب کے خلاف جنگ میں شیواجی کی فوج سے لڑنے والے کئی مسلم سپہ سالاروں کے نام تاریخ کے اوراق پر آج بھی باقی ہیں۔ ہندوتوا طاقتیں ہندوستان کی نئی تاریخ لکھنا چاہتی ہیں جس میں مسلم حکمرانوں کو حملہ آور کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ مسلم حکمرانوں کو لٹیرے ثابت کرنے والے عناصر کیا اِس بات سے انکار کرسکتے ہیں کہ بیشتر مسلم حکمرانوں نے ہندوستان کی دولت کو کہیں اور منتقل نہیں کیا بلکہ ہندوستان میں یادگاروں کو تعمیر کیا اور اِسی ملک کی مٹی میں دفن ہوئے۔ جن بادشاہوں نے ہندوستان کو اپنا وطن تسلیم کرلیا ہو وہ دیش دروہی کیسے ہوسکتے ہیں۔ محمد بن قاسم نے سندھ کے راستہ پہونچ کر جب ہندوستان پر حکمرانی کی تھی تو مذہبی رواداری کا وہ نمونہ پیش کیا کہ جب وہ ہندوستان سے واپس ہونے لگے تو ملک میں کہرام مچ گیا تھا۔ اُُن کی واپسی کے بعد رعایا نے اُن کی مورتی بناکر پوجا شروع کردی تھی۔ یہ دراصل محمد بن قاسم کے کردار کا اثر تھا کہ غیر بھی اُن کی مدح سرائی پر مجبور تھے۔ ہاں تو گفتگو ابو عاصم اعظمی کی چل رہی تھی جنھیں مہاراشٹرا اسمبلی کے بجٹ سیشن تک یعنی 26 مارچ تک معطل کردیا گیا۔ اُن پر الزام ہے کہ اعظمی نے اورنگ زیب کی تعریف اور شیواجی کی توہین کی تھی۔ ابو عاصم اعظمی نے اورنگ زیب کی انتظامی صلاحیتوں کے بارے میں جو کچھ بھی کہا وہ اُن کی اپنی تحقیق نہیں بلکہ نامور مؤرخین کی کتابوں میں درج تاریخی حقائق ہیں۔ نفرت کا یہی سلسلہ اگر جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب تاج محل کو شاہ جہاں کے بجائے کسی اور ہندو حکمراں سے منسوب کردیا جائے گا۔ مسلم حکمرانوں اور خاص طور پر مغلوں نے جو یادگاریں تعمیر کی ہیں وہ ہندوستان کی آمدنی میں اضافہ کررہی ہیں۔ مغل حکمرانوں کی یادگار لال قلعہ پر قومی پرچم لہرایا جاتا ہے۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مسلمان ہر سال 15 اگست اور 26 جنوری کو قومی پرچم اپنے سر کے تاج کی طرح سجاتے ہیں۔ آزادی سے لے کر آج تک قومی پرچم لہرانے کے لئے لال قلعہ سے بہتر کسی عمارت کا انتخاب نہیں کیا جاسکا۔ سال بھر مسلمانوں سے نفرت لیکن قومی پرچم لہرانا ہو تو مسلم یادگار کو جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کی یادگاروں سے نہ صرف بیرونی زرمبادلہ حاصل ہورہا ہے بلکہ دنیا بھر میں ہندوستان کی شناخت ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اجنتہ اور ایلورا دیکھنے نہیں بلکہ تاج محل، چارمینار، قطب مینار اور لال قلعہ کے نظارے کے لئے ہندوستان کا رُخ کرتے ہیں۔ عالمی سربراہان مملکت ہندوستان کے دورے میں تاج محل کو ضرور شامل کرتے ہیں۔ ملک کو ایسی یادگار عمارتیں بطور وراثت چھوڑنے والے حکمراں حقیقی معنوں میں محب وطن نہیں تو کیا ہیں؟ لیکن کوتاہ اور کم ذہن لوگ اُنھیں مسلم دشمن قرار دیتے ہیں۔ ابو عاصم اعظمی نے جو کچھ کہا تھا وہ تاریخی سچائی ہے لیکن اُن کا قصور بس اتنا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ اگر کوئی ایسا شخص جس کے نام میں شاہ، یوگی اور فڈنویس یا ٹھاکرے ہو تو اُس کے خلاف کارروائی کی جرأت نہیں ہوتی۔ اورنگ زیب کی رواداری، مندروں کو جاگیرات اور انعام کے بارے میں شاہی فرمان آج بھی مندروں میں موجود ہیں لیکن تنگ نظر اِسے قبول کرنے تیار نہیں۔ فرقہ پرست عناصر کے انکار اور ابو عاصم اعظمی کی معطلی سے سچائی کو چھپایا نہیں جاسکتا اور نہ ہی تاریخی حقائق تبدیل کئے جاسکتے ہیں۔ اسمبلی میں کسی رکن کے خلاف کارروائی کے کچھ اُصول ہیں۔ اگر رکن نے ایوان میں کوئی قابل اعتراض بیان دیا یا ایسی کوئی حرکت کی جس سے ایوان کا وقار مجروح ہوتا ہے تو اسپیکر کو اختیار ہے کہ ایوان کی منظوری سے مذکورہ رکن کے خلاف کارروائی کرے۔ ابو عاصم اعظمی کے جس بیان کو بنیاد بناکر اُنھیں معطل کیا گیا وہ بیان اسمبلی کے باہر دیا گیا اور اِس سے ایوان یا اسپیکر اسمبلی کی توہین کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ ویسے بھی ابو عاصم اعظمی نے صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بیان سے دستبرداری اختیار کرلی تھی۔ جب بیان ہی واپس لے لیا گیا تو پھر کارروائی کا کیا جواز ہے؟ ابو عاصم اعظمی کے خلاف کارروائی دراصل کمزوروں اور مظلوموں کے حق میں اور فرقہ پرستوں کے خلاف اُٹھنے والی آواز کو دبانا مقصد ہے۔ اِسی لئے طاقت کی بنیاد پر معطلی کا فیصلہ کیا گیا۔ اتنا ہی نہیں چیف منسٹر دیویندر فڈنویس نے اعظمی کو جیل بھیجنے کی بات کہی ہے۔
ہندوستان میں دستور، قانون اور عدلیہ کی حکمرانی کے بجائے جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا معاملہ چل رہا ہے۔ 2014 ء میں بی جے پی کے مرکز میں برسر اقتدار آنے کے بعد فرقہ پرست طاقتوں کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مہم کا جیسے لائسنس مل چکا ہو۔ اگر کوئی مسلمان مغل حکمرانوں کا نام بھی لیتا ہے تو اُسے ملک دشمن قرار دیا جارہا ہے حالانکہ مسلم مؤرخین سے زیادہ ہندو مؤرخین نے مغل حکمرانوں کی انتظامی صلاحیتوں اور مذہبی رواداری کے ثبوت پیش کئے ہیں۔ اگر نریندر مودی اور اُن کے حواریوں میں ہمت ہو تو ستیش چندرا، بشمبر ناتھ پانڈے، راجیو ڈکشٹ، ڈاکٹر رام پنیانی اور اودھ اوجھا جیسے مؤرخین کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے اپنی تحقیق کو تصانیف کے ذریعہ عوام تک پہنچایا ہے۔ اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اورنگ زیب کے دور میں ہندوستان حقیقی معنوں میں اکھنڈ بھارت تھا۔ ہندوستان کے اطراف آج جتنے بھی آزاد مملکتیں ہیں وہ ہندوستان میں شامل تھیں۔ مہاراشٹرا کی حکومت ابو عاصم اعظمی کو ناکردہ گناہ کی سزا دے رہی ہے حالانکہ اُنھوں نے شیواجی کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوتوا کے نظریہ ساز ایم ایس گولوالکر اور ساورکر نے اپنی اپنی کتابوں میں شیواجی کے بارے میں ایسے ایسے الفاظ استعمال کئے کہ جن کا تذکرہ نہیں کیا جاسکتا۔ گولوالکر نے اپنی کتاب ’’بنچ آف تھاٹ‘‘ اور ساورکر نے اپنی کتاب ’’Six Glorious Epochs of Indian History‘‘ میں مراٹھا سمراٹ شیواجی کو حکمرانی کے لئے ناکارہ اور عیاش لکھا ہے لیکن بی جے پی اور سنگھ پریوار کو اعتراض صرف مسلمانوں کی جانب سے حق بیانی پر ہے۔ بی جے پی ترجمان سدھانشو ترویدی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی جنھوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں ساورکر کی انگریزوں سے معافی کو درست قرار دیتے ہوئے یہاں تک کہاکہ شیواجی نے اورنگ زیب کو کئی خطوط روانہ کئے تھے۔ گولوالکر، ساورکر اور سدھانشو ترویدی کے بیانات پر ہندوتوا طاقتوں کی عزت نفس کیوں نہیں جاگتی۔ چیف منسٹر اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ نے اترپردیش اسمبلی میں ابو عاصم اعظمی کو نشانہ بنایا اور کہاکہ اُنھیں اترپردیش بھیجا جائے تاکہ سبق سکھاسکیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے شاید گولوالکر اور ساورکر کی کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا ہوگا۔ خود یوگی کی اپنی ریاست اترپردیش میں مغل حکمرانوں کی یادگاریں دنیا میں ہندوستان کی شناخت بن چکی ہیں۔ اورنگ زیب کی تعریف کرنے والوں کو ملک بدر کرنے کی بات کرنے والے یوگی آدتیہ ناتھ گولوالکر اور ساورکر کے بارے میں پہلے اپنی رائے پیش کریں کہ وہ کس ملک کے ہیں۔ تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششوں کے تحت ’’چھاوا‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ فلم تیار کی گئی جس میں اورنگ زیب کو ہندوؤں کے دشمن کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ اگر فلم سچائی پر مبنی ہوتی تو شیواجی کی فوج میں شامل مسلم سپہ سالاروں کے نام بھی پیش کئے جاتے۔ نریندر مودی حکومت کی سرپرستی میں ملک میں نفرت کا زہر تیزی سے پھیل رہا ہے۔ مساجد پر مندر ہونے کے دعوے، مساجد پر بلڈوزر، دینی مدارس کے خلاف سازش اور مسلمانوں کی املاک اور مکانات پر بلڈوزر روز کا معمول بن چکا ہے۔ ملک کی کسی نہ کسی ریاست میں روزانہ کسی مسجد کو نشانہ بنانے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ عبادت گاہ چاہے کسی مذہب کی ہو اُس کا احترام ہونا چاہئے۔ لیکن نفرت کے یہ سوداگر صرف اپنی عبادت گاہوں کو ہی مقدس تصور کرتے ہیں جبکہ دستور ہند نے تمام مذاہب کو مکمل آزادی دی ہے۔ ملک کے حالات پر محمد علی وفا کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
یہ جو چنگاری ہے نفرت کی بجھادو ورنہ
آگ بن جائے تو پھر کچھ نہیں ہونے والا