آہ ! مکرم جاہ بہادر، ارب پتی شہزادہزندگی کے کچھ پوشیدہ اوراق

   

محمد ریاض احمد
نواب میر برکت علی خان مکرم جاہ بہادر کی رحلت کے ساتھ ہی قومی عالمی میڈیا میں ان کی شاہانہ طرز زندگی ، دولت و حشمت ، فیاضی و دریادلی‘ شاہ خرچی‘ انسانیت نوازی ‘ خودداری‘ اعلیٰ ظرفی ‘ تدبر و تفکر‘ بے پناہ خوبیوں ‘ کچھ خامیوں پر روشنی ڈالی گئی اور ایسا لگ رہا تھا کہ میڈیا میں اس معاملہ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہا ہے۔ اکثر میڈیا میں نظام سابع اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خان کا جانشین بنائے جانے کے حوالے سے یہی بتایا گیا کہ جس طرح ان کے دادا آصف سابع اپنے انتقال تک اس کرہ ارض کے دولت مند ترین شخصیت تھے اسی طرح 1984 تک بھی یہ اعزاز شہزادہ مکرم جاہ کو حاصل رہا کیونکہ وراثت میں انھیں 236 ارب ڈالرس مالیتی اثاثے حاصل ہوئے تھے۔ جن کی بہترین مثال نظام دکن کے وہ 173 لا قیمت جواہرات ہیں جنہیں حکومت ہند نے 1995 میں صرف 218 کر وڑ روپئے کے عوض خریدلئے۔ حالانکہ صرف جیکپ ڈائمنڈ کی قیمت 1300کروڑ روپئے بتائی جاتی ہے۔ حضور نظام اس ہیرہ کو بطور پیپر ویٹ استعمال کرتے تھے۔ واضح رہے کہ آج کل دارالحکومت دہلی میں ان زیورات کی نمائش ہورہی ہے جبکہ عالمی سطح پر نظام جیولز کو لاقیمت قرار دیا گیا۔ اگر مکرم جاہ بہادرکی زندگی کا جائزہ لیں تو حقیقت میں وہ پریوں کی کہانیوں کی طرح محسوس ہوگی انھیں جس قدر دولت ورثہ میں حاصل ہوئی جس طرح کی پر تعش زندگی اللہ رب العزت نے ان کے مقدر میں لکھی تھی۔ شائد اس کا صرف برصغیر کے 565 دیسی ریاستوں کے نواب‘ راجہ راجواڑے بلکہ دنیا کے بیشتر شاہی خاندان کے ارکان بھی تصور نہیں کرسکتے ۔
آسٹریلیائی مصنف John Zurzycki نے
The Lost Nizam: the rise and fall of India’s greatest princely state
میں مکرم جاہ بہادر کی بے پناہ دولت کے بارے میں لکھا کہ وہ کلو گرام میں ہیرے‘ ایکڑ میں موتیوں اور ٹنوں میں سونے کی اینٹوں کا شمار کیا کرتے تھے۔ مکرم جاہ بہادر دولت ، شہرت، عزت، غرض سب کچھ رکھنے کے باوجود ہمیشہ میڈیا سے دور رہنے کو ترجیح دیتے۔ انہوں نے کبھی ہندوستانی قوم کو یہ یاد نہیں دلایا کہ ان کے دادا نواب میر عثمان علی خان بہادر نے 1965 کے دوران جبکہ ہمارا ملک حالت جنگ میں تھا نیشنل ڈیفنس فنڈ میں پانچ ہزار کلو سونا (جس کی مالیت آج 1600-1800 کروڑ روپئے ہوگی) بطور عطیہ پیش کیا۔
بہ یک وقت کسی ہندوستانی نے ملک کی تاریخ میں اتنا بڑا عطیہ نہیں دیا۔ انہوں نے کبھی عوام کو یہ نہیں بتایا کہ ان کے دادا نے 1937 کے لندن میں عظیم الشان مسجد نظامیہ تعمیر کروائی جس کا سنگ بنیاد ان کے والد والا شان صاحبزادہ نواب سر میر حمایت علی خان بہادر صدیقی اعظم جاہ نے رکھا تھا ۔ بعد میں یہ ریجنٹس پارک مسجد یا London Central Mosque کہلائی جانے لگی۔ شہزادہ مکرم جاہ نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ ان کی والدہ ماجدہ خدیجہ خیریہ عائشہ درشہوار سلطانہ کو برصغیر میں کسی طیرانگاہ کا افتتاح کرنے والی پہلی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔ انہوں نے کبھی عوام پر یہ کہتے ہوئے رعب جمانے کی کوشش نہیں کی کہ خلافت عثمانیہ کے آخری خلیفہ و سلطنت عثمانیہ کے آخری سلطان خلیفہ عبدالمجید دوم کے وہ نواسے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی کبھی جھوٹی شان نہیں جتائی کہ حیدرآباد ۔ رنگاریڈی اور مہاراشٹرا کے حمایت نگر علاقے ، ذخیرہ آب حمایت ساگر، حمایت باغ اورنگ آباد اور پھلوں کے بادشاہ حمایت آم ان کے والد ماجد والا شان صاحبزادہ نواب میر حمایت علی خان بہادر صدیقی سے موسوم ہے۔
شہزادہ مکرم جاہ نے دنیا کی بہترین تعلیمی اداروں بشمول حیدرآباد کے مدرسہ عالیہ جاگیر دار کالج ‘ ڈون اسکول دہرہ دون ‘ ایٹن کالج لندن‘ سائنڈ ہرشٹ ملٹری اکیڈیمی کالج لندن میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے ہم جماعتوں میں اردن کے مرحوم شاہ حسین اور عراق کے مرحوم کنگ فیصل بن علی شامل تھے۔ ان کا جب بھی تذکرہ کیا پر وقار انداز میں کیا۔ شہزادہ مکرم جاہ نے مسرت محل پرانی حویلی میں مکرم جاہ ٹرسٹ فار ایجوکیشن اینڈ لرننگ، مکرم جاہ اسکول، پرنسس عیسن گرلز اسکول اور بیشمار تعلیمی ادارے بھی بڑی خاموشی سے تعمیر کروائے۔ مہاراشٹرا کے مختلف مقامات بشمول اورنگ آباد میں اپنی کئی جائیدادیں تعلیمی اداروں کو بطور عطیہ پیش کردیں۔
شہزادہ مکرم جاہ بہادر کو ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور شریمتی اندرا گاندھی بہت عزیز رکھتے تھے۔ خود انہوں نے 2010 کو اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ پنڈت نہرو ان کے لئے بڑے منصوبے رکھتے تھے۔ وہ پنڈت نہرو اور اندرا گاندھی کے ساتھ گھومتے پھرتے، ایک ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ وہ کئی ماہ تک دہلی میں پنڈت نہرو کے گھر میں مہمان رہے۔ ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جب پنڈت جی نے انہیں باوقار عہدہ صدرجمہوریہ کی پیشکش کی۔ لیکن شہزادہ مکرم جاہ نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا۔ اگر وہ چاہتے تو پنڈت نہرو اور اندرا گاندھی سے اپنے قریبی تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی جائیدادوں ، اپنی دولت کا بہ آسانی تحفظ کرسکتے تھے۔ لیکن انہوں نے ان خوشگوار تعلقات کا کبھی فائدہ نہیں اٹھایا۔
شہزادہ مکرم جاہ بہادر کو اپنے دادا نواب میر عثمان علی خان بہادر پر فخر تھا۔ وہ انہیں ایک غیر معمولی بصیرت رکھنے والے حکمران قرار دیتے تھے جنہوں نے تعلیم، عدلیہ، آبپاشی اور بنیادی سہولتوں کے شعبوں میں حیدرآباد دکن کو ایک عصری ریاست میں تبدیل کردیا تھا۔
مکرم جاہ اس خیال کے بھی حامی تھے کہ مسلم خواتین کو ہیڈ اسکارف پہننا چاہئے۔ انہوں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اسلام خود خواتین کو حجاب کا حکم دیتا ہے تو پھر دوسروں کے مذہبی امورمیں مداخلت کیوں کی جانی چاہئے۔ عوام چاہئے ہندو ہو یا مسلم ، سکھ ہو یا عیسائی ، انہیں ان کے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے۔ مکرم جاہ بہادر کو بے شک وراثت میں بے تحاشہ دولت ملی تھی لیکن تقریباً 15ہزار ملازمین کا بوجھ بھی ان پر عائد ہوا تھا جن میں تین ہزار ارب باڈی گارڈس بھی شامل تھے جبکہ تین ہزار کے قریب وارثوں سے انہیں قانونی جنگ کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مصارف کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1967 میں نظام گیاریجس کا صرف سالانہ خرچ 45ہزار اسٹرنگ پاؤنڈ تھا۔ یہ رقم 60 کاروں کی دیکھ بھال اور پٹرول وغیرہ پر خرچ کی جاتی تھی۔ حضور نظام کی وفات کے بعد اگرچہ مکرم جاہ ان کے جانشین بنے لیکن اپنوں اور غیروں نے حضور نظام کی قیمتی جائیدادوں اور دولت کو دل کھول کر لوٹا۔ مثال کے طورپر 1967 اور 2001 کے درمیان چو محلہ پیالیس 54 ایکر سے سکڑ کر 12 ایکر تک محدود ہوگیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جب ایک عالمی سازش کے تحت خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کردیا گیا اس وقت معز ول خلیفہ عبدالمجید دوم اور ان کے ارکان خاندان کو مصطفی کمال عطا ترک اور اس کے انتظامیہ نے جلا وطن کرکے سوئٹزرلینڈ میں رہنے پر مجبور کردیا۔ ہندوستان میں بھی گاندھی ‘ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی و دیگر علماء و مجاہدین آزادی نے تحریک خلافت شروع کی تھی اس دوران مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی نے حضور نظام سے معزول خلیفہ عبدالمجید اور ان کے خاندان کے لئے نہ صرف خصوصی پنشن جاری کروائی بلکہ شہزادہ اعظم جاہ اور شہزادہ معظم جاہ کے رشتے بالترتیب خلیفہ عبدالمجید کی دختر شہزادی درشہور اور ان کی بھتیجی شہزادی نیلوفر سے طئے کروائے اور ایک مرحلہ پر خلافت حیدرآباد منتقل کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا لیکن اسلام دشمن طاقتوں کے باعث وہ ممکن نہ ہوسکا۔
شہزادہ مکرم جاہ اور خاندان آصفجاہی کے حکمرانوں اور ان کے ارکان خاندان کی زندگیوں ‘ ان کی بود و باش ، رہن سہن، کھانے پینے، ذوق لباسی ، سحر و تفریح، شاہ خرچی کا جائزہ لیتے ہیں تو مولانا عبدالمجید دریا آبادی کا وہ پیش نامہ یاد آتا ہے جو انہوں نے صدق جائسی کی ایک کتاب کے لئے کچھ یوں لکھا تھا۔
’’ ان کا کہنا پینا ، رہنا سہنا، سونا جاگنا، ان کی مسرت و غم، ان کی محبت و نفرت، ان کے کھیل کود، اپنوں اور غیروں سے ان کا برتاؤ، ان کے عیش منانے کے طریقے، ان کے ہاں ولادت و موت کے وقت کی رسمیں، ان کی بخششیں اور فیاضیائیں ، ان کے جور و ستم اور جلادیاں، ان کی عبادتیں، ان کی ضیافتیں، ان کی صبح و شام، غرض ان کی زندگی کے چھوٹے بڑے سارے شعبے ہم عوام الناس کے لئے ایک عجوبہ ہی ہے۔ جہاں تک محبت و نفرت کا سوال ہے شہزادہ مکرم جاہ بہادر کے بارے میں ایک واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ
ایک مرتبہ اپنے ایک مدد گار یا ملازم کو انہوں نے کسی سنگین غلطی پر ایسا زوردار تھپڑ رسید کیا کہ وہ نیچے گر پڑا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ پھر کبھی شہزادہ کے دربار میں نہیں آئے گا لیکن جب وہ دوسرے دن شہزادہ مکرم جاہ کے پاس پہنچا تو انہوں نے اپنے گلے سے سونے کی زنجیر نکال کر اس ملازم کے گلے میں ڈال دی جو معذرت خواہی کا ایک شاہی انداز تھا اور ایسا انداز صرف شہزادہ مکرم جاہ نے اختیا رکیا تھا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایک مرحلہ پر مکرم جاہ ہندوستانی فوج میں بھی شامل ہونے کے خواہاں تھے لیکن پنڈت نہرو کو ان کا آئیڈیا پسند نہیں آیا۔ پنڈت جی انہیں مغربی ایشیاء کے لئے ہندوستانی سفیر بنانے کے خواہاں تھے۔ جہاں تک شاہ خرچی کا سوال ہے رضا علی خان نے اپنی کتاب 400Years (591-1991) Hyderabad میں شہزادہ مکرم جاہ کے دادا کے بارے میں لکھا کہ 1939 کے سرما میں اعلی حضرت نے اپنے اے ڈی سی کو حکم دیا کہ ان کے لئے ایک کمبل خریدیں جس کی قیمت 25روپئے سے زائد نہ ہو۔ ان کے اے ڈی سی کی لاکھ کوششوں کے باوجود 35 روپئے سے کم قیمت والی کوئی کمبل دستیاب نہیں ہوسکی۔ جس پر انہوں نے کہا کہ وہ سرما پرانی کمبل میں ہی گزاریں گے۔ لیکن اس کے دو گھنٹوں بعد ہی بیکانیر کے مہاراجہ کا ایک شخصی مکتوب موصول ہوا جس میں بنارس ہندو یونیورسٹی کے لئے عطیہ دینے کی التجا کی گئی تھی۔ حضور نظام نے فوری بی ایچ یو کے لئے ایک لاکھ روپئے دینے کا فرمان جاری کیا جبکہ شہزادہ مکرم جاہ کی دریا دلی کے بارے میں ان سے قریب رہے۔ شاہد حسین زبیری اپنی کتاب اوراق ماضی میں ایک حجام راجہ رام کا واقعہ لکھتے ہیں۔ جسے شہزادہ نے بال کٹوانے کے بعد 25ہزار روپئے دیئے تھے۔ مصاحبین حیران تھے کہ آخر ایک زلف تراش راجہ رام پر اتنی مہربانی کیوں۔ اس واقعہ کے ذریعہ شہزادہ مکرم جاہ کے حس مزاح کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ خود انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے اس کی وجہ بتائی تھی کہ راجہ رام بال بنانے کے بعد جب شیو کررہا تھا عین شہ رگ کے قریب استرا چلانے کے دوران اپنی حاجت بتائی اور 25ہزار روپئے طلب کئے جس کے باعث ہی انہوں نے اسے 25ہزار روپئے دینے کے لئے ہاں کردی۔ ایک بات ضرور ہے کہ اپنے وطن کی مٹی میں دفن ہوکر مکرم جاہ نے دشمنوں کو یہ بتادیا کہ وطن کی مٹی سے ہمیں کس قدر لگاؤ ہے جس کی مثال دوسرا کوئی اور پیش نہیں کرسکتا۔ بہرحال ہر انسان چاہے سلطان ہو یا کسان ، شاہ ہو یا فقیر، راجہ ہو یا پراجا ، ان میں جہاں خوبیاں پائی جاتی ہے وہیں خامیاں بھی پائی جاتی ہے۔ ہاں چیف منسٹر کے سی آر نے شہزادہ مکرم جاہ کی مکمل سرکاری اعزازات کے ساتھ تجہیز و تکفین کا حکم دیتے ہوئے جرأت مندانہ اقدام کیا لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ حضور نظام کے لا قیمت جواہرات کو حیدرآباد لا کر شہزادہ مکرم جاہ کے نام سے اس کی مستقل نمائش کی جائے۔