آہ ! وقارالدین : ایک عبقری شخصیت

   

ڈاکٹر محی الدین حبیبی
وقار الدین کو کون نہیں جانتا۔ ایسے شخص کے بارے میں کچھ تعارفی کلمات لکھنا بڑا مشکل مسئلہ ہے کہ بات کہاں سے شروع کی جائے۔ وہ تو ایسا شخص تھا جس کے بارے میں اتنا تو ضرور کہا جاسکتا ہے۔
زیب دیتا ہے اُسے جس قدر اچھا کہئے
حضرت سید یوسف الدین قبلہؒ کے علمی گھرانے کے چشم و چراغ، صاحب سلسلہ اور خانوادہ سادات، نجیب الطرفین تھے۔ والدہ محترمہ حضرت موسی قادریؒ (احاطہ پرانا پل) کی پوتری تھیں۔ ’’ایں خانہ تمام ہمہ آفتاب است‘‘ والی بات صادق آتی ہے۔ والد بزرگوار نے 1921ء میں ’’رہبر دکن‘‘ کی اشاعت عمل میں لائی جس کو آج ایک صدی سے زائد ہوگئے۔ زوال حیدرآباد کے بعد اس کو ’’رہنمائے دکن‘‘ کے نام سے شائع کیا جانے لگا۔ ابتداً وقار صاحب کے عم زاد بھائی منظور حسین انصاری اس کے مدیر اعلیٰ تھے۔ بعد میں برادر محترم سید لطیف الدین اس کی ادارت میں شامل ہوگئے۔ جب وقارالدین مرحوم علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوکر 1967ء میں حیدرآباد واپس ہوئے تو لطیف الدین صاحب نے ان کو نہ صرف چیف ایڈیٹر ’’رہنمائے دکن‘‘ مقرر کیا بلکہ انڈو۔عرب لیگ کا خواب جو انہوں نے دیکھا تھا، اس کی تعبیر پانے کیلئے وقار صاحب ہی کو اس تنظیم کے چیرمین کا عہدہ عطا کیا۔ خود مینیجنگ ایڈیٹر اور سرپرست اعلیٰ انڈو۔عرب لیگ کی حیثیت سے تادم حیات تعاون دیتے رہے۔ میرے بڑے بھائی علیگڑھ یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر تھے جس وقت وقار، میرے عزیز دوست، علیگڑھ میں زیرتعلیم تھے۔ برادر محترم پروفیسر سید احمد معین الدین حبیبی اور سید لطیف الدین قادری میں بڑی گہری دوستی تھی جو ان کے رفیق فکر کا درجہ رکھتے تھے۔ ان دونوں حضرات کا میری اور وقار صاحب کی فکر و نظر پر گہرا اثر پڑا۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ یہ دونوں حکمت و دانش کے روشن چراغ 1984 اور 1994ء میں بجھ گئے لیکن ان حضرات کی تربیت، معاملہ فہمی، تدبر و تفکر، بصیرت و بصارت اور حکمت و فراست ہمارے لئے رہنما و رہبر کا کام کرتی رہی۔ ہم نے ان حضرات کے اصولوں، حق گوئی اور صدق و صقا کو جان سے بھی زیادہ عزیز سمجھا۔ اب میرے اور وقار صاحب کے فکری اور عملی تعلقات میں زیادہ استحکام آنے لگا۔ چاہے وہ اخبار کا معاملہ ہو یا انڈو ۔ عرب لیگ مجھے یہ سعادت حاصل رہی کہ وقار پاشاہ مجھے سے متواتر رائے مشورہ کیا کرتے تھے اور بڑے قدرداں تھے۔
وقار صاحب ہمیشہ بڑے دکھ اور دردمندانہ لہجہ میں کہا کرتے : ’’حبیبی صاحب! ان فلسطینیوں کو ابھی اور کتنی خون کی قسطیں دینی ہوں گی کہ فلسطینی ریاست پوری خودمختاری کے ساتھ وجود میں آئے۔ دنیا کے ہر غلام ملک نے اپنے وطن کی آزادی کیلئے جدوجہد کی ہے اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوئے ہیں، یہ کیا بات ہے کہ استعماری طاقتیں مجاہد فلسطین کو دہشت گرد کہتی ہیں، یہ کہاں کا انصاف ہے‘‘۔ گاندھی جی نے ہمارا ہندوستان آزاد ہونے کے 15 سال قبل ہی کہہ دیا تھا۔ فلسطین فلسطینیوں کیلئے ایسا ہی ہے جیسے انگریزوں کیلئے انگلینڈ گویا انہوں نے بھارت کی ابتدائی خارجہ پالیسی مدون ہی کردی تھی۔ پنڈت نہرو اور مسز اندرا گاندھی نے بھی فلسطین کی بھرپور تائید کی بلکہ عزت مآب یاسر عرفات تو اندرا گاندھی کو اپنی ہمشیرہ کا درجہ دے رکھا تھا۔ یہاں تک کہ اٹل بہاری واجپائی بھی فلسطینی کاز کے بڑے حامی رہے ہیں جس کا اظہار انہوں نے انڈو۔ عرب لیگ کے عوامی جلسہ میں بھی کیا تھا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں فلسطین کیلئے نئی عمارت تعمیر کرواکر دی تو صدر فلسطین محمود عباس نے کہا کہ ہم بھی بہت جلد بیت المقدس یروشلم میں بھارت کے لئے اسی طرح سفارت خانہ بنا کردیں گے۔ افسوس کہ آج تک ان کا خواب بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی تعبیر ڈھونڈنے کیلئے بے حد کشمکش سے دوچار ہے۔
ہیں زباں پر وہی آشفتہ سری کے قصے
ہندوستان نے تو 1974ء میں ہی P.L.O تحریک آزادی فلسطین تنظیم کو تسلیم کرلیا تھا۔ کون جانتا ہے، ختم کب یہ وحشت ہوگی؟ خود انڈو۔ عرب لیگ (انڈیا) حیدرآباد کو قائم ہوئے تقریباً 60 سال ہوچکے ہیں۔
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے تازہ دم علم و حکمت سے آراستہ ہوکر جب آئے تو رہنمائے دکن، انڈو۔ عرب لیگ اور مسلم متحدہ محاذ اور ساؤتھ انڈیا اُردو اکیڈیمی کی ذمہ داریوں کا بار گراں بھی اٹھانا پڑا۔ رہنمائے دکن کو ایسا سنوارا کہ سب سے پہلے فوٹو آفسیٹ پر شائع کرکے اس کے کمال و جمال، چار چاند کیا ہزار چاند لگادیئے۔ انڈو۔ عرب لیگ کے مقاصد کی تکمیل کیلئے سینکڑوں سیمینار اور عوامی جلسے اس لئے منعقد کئے کہ فلسطین کی تائید میں رائے عامہ میں شدت احساس و اجتہاد پیدا ہو۔ سارے ملک میں اس نوع کی کوئی تنظیم رہی اور نہ ہی تادم تحریر کسی ادارہ نے ایسی جسارت کی کیونکہ انہیں استعماری طاقتوں سے اختلاف کرنا پڑتا تھا اور ایسی صدق و صفا کی جدوجہد صرف وقارالدین ہی کرسکتے تھے۔ اس کے علاوہ جب بھی صورتحال نے مطالبہ کیا تو وقار صاحب نے فلسطینی عوام کیلئے رقمی امداد ملین ڈالرس بھی دی جو زیادہ تر ان کی ذاتی رقم ہوا کرتی تھی۔ یہی نہیں اپنے ملک ہندوستان میں بھی جس وقت بھی کوئی طوفان، سیلاب یا اور کوئی سماوی آفت آئی تو انہوں نے وزیراعظم ریلیف فنڈ اور چیف منسٹر ریلیف فنڈ میں قابل قدر مالی تعاون کیا۔ ویسے میں اس بات کا شاہد ہوں کہ وہ تقریباً روانہ چار پانچ ہزار کی سخاوت کرتے تھے جو بھی سائل یا طالب شخص یا کسی ادارہ کا نمائندہ آتا تو اس کو بھی خالی ہاتھ نہ بھیجتے تھے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وقار صاحب نے دشواریوں اور ناسازگار، ناہمواری حالات میں ہمیشہ دم پرواز کو اور ان کے بال و پر کو مزید توانا و مضبوط کیا۔ ان کی اولوالعزمی، عالی ہمتی، بلند نگاہی، جہد مسلسل اور ثابت قدمی ہر ایک کیلئے مشعل راہ ہے کہ
نگاہ بلند، سخن دلنواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے
جہاں تک ان کے اخلاق کریمانہ اور اوصاف حمیدہ کا تعلق ہے، اس کا کس ڈھنگ رنگ سے ذکر کیا جائے۔ مشکل ہے، بہت مشکل۔ صدق و صفا، خیر و خیرات انکساری و خاکساری، دل جوئی ، دلبری، صاف گوئی جو حق گوئی کے درجہ کی تھی۔ مہمان نوازی اور انسانیت نوازی ان کی عبقری شخصیت کا دوسرا نام ہے۔ بلندیِ خلق کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جنہوں نے خود ان کی زندگی میں ان کے خلاف کام کیا تھا۔ ان کو بھی بخش دیا اور عفو و درگذر سے کام لیا۔
اب یہ گم شدہ نظروں کی سوغات و التفات ،وہ مژدہ مہر و الفت، وہ بیکراں، وہ احسان بے پایاں، وہ تقدیس تخیل، وہ طہارت فکر و نظر ، وہ خطاب پراثر، وہ عزت و وقار، وہ عظمت و افتخار، وہ دانش و حکمت، وہ بصیرت و بصارت، وہ تدبر و تفکر، وہ اعلیٰ انسانی اقدار کا علمبردار، وہ حسن اخلاق کا بلند کردار جو عجب سو شان آن بان سے زندگی کا فریب دے کر حیات جاویداں کی آغوش میں چلا گیا۔ گرفتار فنا ہوکر علاقہ بقاء میں چلا گیا۔
آسماں تری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے