آیا صوفیہ، میوزیم سے مسجد تک بدلتا رجحان

   

رام پنیانی

پچھلے تین دہوں سے دنیا نے عالمی سیاسی منظر میں خطرناک تبدیلی کا مشاہدہ کیا ہے۔ اس سے پہلے کے دہوں میں عالمی برادری نے ملکوں کی جدوجہد آزادی کو دیکھا تھا اور یہ بھی دیکھا تھا کہ عالمی برادری نے اس کرہ ارض کو درپیش مسائل پر توجہ بھی مرکوز کی ہے۔
کئی ایسے ممالک جو نوآبادیات کی گرفت سے باہر نکل آئے ہیں مختلف بینروں کے تحت صنعتیانے، تعلیم اور زرعی ترقی کو اولین ترجیح دی۔ ہندوستان، ویتنام، کیوبا ان ہی ممالک میں سے چند ممالک ہیں۔ ان ملکوں نے روز بہ روز بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی کے باوجود ملک کے محروم طبقات کے حالت زار اور ان کی جدوجہد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خود کو مذہب کے نام پر کی جانے والی سیاست کے شدید دباؤ سے دور رکھا۔ یقینا کچھ ایسے بھی ممالک ہیں جہاں حکمرانوں نے مذہبی رہنماؤں جیسے پادریوں وغیرہ کے ساتھ ملکر جاگیردارانہ نظام کے قواعد کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اپنے ملکوں میں پسماندگی کے خاتمہ کے لئے کئے جانے والے اقدامات سے گریز کیا۔ یہ دراصل ان کی پالیسیوں کے تئیں نسلی طریقہ کار تھا۔ ہمارے دو پڑوسی ملک پاکستان اور مائنمار اسی زمرہ میں آتے ہیں۔
پچھلے 30 برسوں کے دوران خاص طور پر مذہب کے نام پر سیاسی تسلط میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔ یہی نہیں بلکہ اسلامی، ہندتوا، عیسائی بنیاد پرستی، بدھسٹ بنیاد پرستی جیسی اصلاحات بھی منظر عام پر آئیں اور جس کے نتیجہ میں یہ ملک ترقی کی پٹری سے ہٹ گئے اور معاشرہ کے ایک بہت بڑا حصہ کی حالت ابتر ہوگئی۔
سردست امریکہ میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ عیسائیت کے نام پر ایسے ہی اقدامات کررہے ہیں اور لوگوں کی تائید و حمایت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اسی طرح مائنمار میں آشین ویراتو بدھ ازم کے نام پر تشدد کو فروغ دے رہے ہیں۔ سری لنکا میں بھی اسی قسم کی کیفیت پائی جاتی ہے جہاں ویراتو جیسے عناصر سرگرم ہیں اور اقلیتوں کو ستا رہے ہیں۔ ہندوستان میں بھی ہندوتوا نے کچھ عرصہ سے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ افغانستان میں القاعدہ، طالبان نے مغرب اور وسطی ایشیا کو تکلیف پہنچائی ہے۔ ان لوگوں نے جو بھی انتقامی کارروائیاں کی ہیں ان میں سب سے تباہ کن کارروائی افغانستان میں موجود گوتم بدھ کے مجسموں اور مورتیوں کو تباہ کرنا ہے۔ القاعدہ و طالبان نے قدیم ترین ان مورتیوں و مجسموں کو زمین دوز کردیا۔ ایسے ہی ہندوستان میں فرقہ پرست عناصر نے ایودھیا کے مقام پر بابری مسجد کو شہید کیا جو ہندوستان کی تاریخ کا ایک تکلیف دہ باب بن گیا ہے۔ ہندو قوم پرستوں نے شہادت بابری مسجد کو ایک اسپرنگ بورڈ کی طرح استعمال کیا ہے۔
یہ تو صرف ہمارے مشاہدے میں آنے والی علامتیں یا مثالیں ہیں جبکہ سماجی و اقتصادی گہرا اثر پڑا ہے جسے ہم خطرناک حد تک پڑھنے والا اثر کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح شہریوں کے حقوق کا موقف اقلیتوں کے حقوق کو بھی زبردست جھٹکا لگا ہے۔ یہ ایسے واقعات ہیں جو عالمی رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر اب کئی نعرے منظر عام پر آئے ہیں جن کا کثرت سے استعمال کیا جارہا ہے۔ سابق میں سامراجی طاقتوں نے بڑے پیمانے پر جو پروپگنڈہ کیا اس کے تحت ان لوگوں نے آزاد دنیا بمقابلہ آمرانہ نظام (سوشل ازم) کا نعرہ دیا۔ پھر 9/11 کے بعد ایک اصطلاح ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کو دنیا میں پھیلایا گیا۔ اب مختلف علاقوں میں یا ملکوں میں بنیاد پرستی کا راج ہے۔ جمہوری اخلاقیات و اصولوں پر دباؤ ڈالا جارہا ہے ساتھ ہی خاص طور پر حقوق انسانی کو خطرہ میں ڈالا جارہا ہے۔

اسی پس منظر میں ہم ترکی میں رجب طیب اردغان کی جانب سے آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد میں جو تبدیلی کی گئی اسے دیکھتے ہیں اور سمجھ بھی سکتے ہیں۔ ترکی دنیا کے ان اہم علاقوں میں شامل تھا جس نے مصطفی کمال اتا ترک کی قیادت میں سیکولر ازم کی راہ کا انتخاب کیا اور سلطنت عثمانیہ کی جانب سے قائم کردہ خلافت عثمانیہ کو ختم کیا۔ اس خلافت کو عالمی سطح پر مسلمانوں کی تھوڑی بہت تائید حاصل تھی لیکن اتا ترک سیکولرازم کے لئے پابند عہد تھا اور اس کا موقف غیر متزلزل تھا اسی نے آیا صوفیہ کو جو پہلے ایک گرجا گھر تھا اور پھر مسجد میں تبدیل کی گئی تھی ایک عجائب گھر یا میوزیم میں تبدیل کیا جہاں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو یکساں مقام حاصل تھا۔

تاہم رجب طیب اردغان جو ترکی میں کئی برسوں سے اقتدار میں ہیں اور ترکی کو بتدریج اسلام ازم کی طرف منتقل کررہے ہیں۔ اسلام کے لئے اسلام ازم ایسے ہی ہے جیسے ہندتوا ہندوازم کے لئے یا عیسائی بنیاد پرستی عیسائیت کے لئے ہے۔ جہاں تک رجب طیب اردغان کا سوال ہے وہ استنبول کے ایک قابل اور کامیاب میئر کی حیثیت سے آگے بڑھتے ہوئے ترکی کے عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے۔ اپنے اقتدار کے ابتدائی چند برسوں میں انہوں نے اقتصادی محاذ پر کام کیا لیکن انہوں نے بعد میں اپنی شبیہہ بنانے کی طرف توجہ مرکوز کردی اور اقتدار کی بھوک نے انہیں اسلامی شناخت کی جانب سیاسی سہارا لینے پر مجبور کیا جبکہ شہریوں کی حالت زار دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ شہریوں کی اسی حالت کا عکس ہمیں مقامی اداروں کے انتخابات میں اردغان کی ناکامی سے نظر آتا ہے۔ ان ناکامیوں کے پیش نظر اردغان ایسا لگتا ہے کہ اسلام ازم کی طرف متوجہ ہوئے اور پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ ترکی میں فن تعمیر کی ایک شاہکار عمارت اور علامت کو ایک مسجد میں تبدیل کردیا گیا۔ بعض مسلمان اسے اسلام کی فتح قرار دے کر خوشیاں منارہے ہیں جبکہ ایسے بھی مسلمان ہیں جو اسلامی اقدار اور انسانیت نوازی کے لئے پابند عہد ہیں۔ وہ اردغان کے اس اقدام پر شدید تنقید کررہے ہیں۔ ان مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اسلام میں کوئی زور زبردستی نہیں (تمہارا دین تمہارے ساتھ، ہمارا دین ہمارے ساتھ) ان مسلمانوں کا یہ موقف اس الزام یا تصور کے برعکس ہے کہ ہندوستان میں اسلام تلوار کی نوک پر پھیلا۔ اس قسم کے سنجیدہ اسلامی اسکالرس ہمیں پیغمبر اسلامؐ کے اس نکتہ کو یاد دلاتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کو تک مسجد میں مدعو کیا۔ بہرحال ہر مذہب محبت و شفقت کا سبق دیتا ہے اور دوسرے انسانوں سے پیار کرنا سکھاتا ہے لیکن کچھ لوگ اقتدار کی بھوک مٹانے کے لئے مذہب کے چند پہلووں کو استعمال کرتے ہیں۔

آج دنیا میں جو بنیاد پرستی ہے ساتھ ہی نئی نئی اصطلاحات گھڑی گئی ہیں اس میں امریکہ کا سب سے بڑا کردار ہے۔ امریکہ نے ہی افغانستان میں سویت یونین کی فوج کا جواب دینے کے لئے القاعدہ کی پرورش کی اسے اٹھایا اور جب القاعدہ کے ہاتھوں سویت یونین نے شرمناک شکست کھائی اور زوال سے دوچار ہوا تب امریکہ دنیا کی واحد سوپر پاور بن کر ابھرا۔ امریکہ نے اس کرہ ارض کے کئی مقامات پر بنیاد پرستی کو بڑی سرگرمی سے فروغ دیا۔ نتیجہ میں وہاں سیکولرازم کی جگہ مذہبی زبان بولی جانے لگی ۔