نئی دہلی، 22 اکتوبر (یو این آئی) سیمانچل کے ادبی اور تعلیمی سرگرمیوں کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے معروف نقاد اور صاحب طرز ادیب حقانی القاسمی نے کہا کہ ’ابجد‘ کی از سرِ نو اشاعت دراصل سیمانچل کی ادبی روح کی بحالی ہے ، جو طویل خاموشی کے بعد ایک نئے عزم و جوش کے ساتھ سامنے آئی ہے ۔ گزشتہ دیررات یہاں سیمانچل سرکل آف دہلی کے زیر اہتمام سہ ماہی ’ابجد‘ کے شمارہ کا مشترکہ طورپراجرا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ابجد‘ کا پہلا شمارہ 7 مئی 2009 کو منظرِ عام پر آیا تھا۔ سیمانچل خطے (ارریہ، پورنیہ، کشن گنج، اور کٹیہار) میں اردو زبان کی گہری جڑوں کے باوجود یہاں سے کوئی معتبر ادبی رسالہ شائع نہیں ہو رہا تھا۔ ’ابجد‘ نے اس خلا کو پُر کیا اور مختصر عرصے میں علمی و ادبی دنیا میں اپنی ایک مضبوط پہچان قائم کی۔
تاہم مالی مشکلات کے سبب دسمبر 2015 میں اس کی اشاعت بند ہو گئی۔ اب برسوں بعد ”ابجد” دوبارہ اپنے سفر کا آغاز کر رہا ہے ۔ اس کی ادارت کی ذمہ داری رضی احمد تنہا، رفیع حیدر انجم، شاہد جمیل، پرویز عالم، شاہد عادل قاسمی اور رہبان علی راکیش پر مشتمل ایک جواں سال ادبی ٹیم نے سنبھالی ہے۔
‘ابجد’ کو نئی زندگی دے کر سیمانچل کے ادبی افق پر ایک نئی روشنی جلائی ہے ۔ یہ رسالہ خطے کے اہلِ قلم کو ایک پلیٹ فارم فراہم کرے گا اور ان کی صلاحیتوں کو قومی سطح تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
ڈاکٹر خالد مبشر نے اپنے پراثر خطاب میں کہا کہ سیمانچل کو ہمیشہ دوسروں کی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا گیا، مگر کسی نے اسے مضبوط بنیاد فراہم نہیں کی۔ ابجد کی اشاعت اس جمود کو توڑنے کی ایک علمی و تہذیبی کوشش ہے ۔ ہمیں اس تحریک کا حصہ بننا چاہیے