ابن بطوطہ کے دیس میں ایک ناقابل فراموش اور یادگار سفر

   

ابن حاجی گل
کچھ سیاح تفریح اور دلچسپی کے مقامات کی سیر کے لئے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے پورا پلان بناکر ایڈوانس بکنگ کرالیتے ہیں۔ اس میں فائدہ یہ ہے کہ نئے ملک میں اجنبی ہوتے ہوئے قیمتی وقت ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے اور آپ بے فکر ہوکر اپنی بکنگ کے مطابق سیر و تفریح کرتے ہیں لیکن ہمارے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ کئی سیاحوں نے ہماری طرح یہ طریقہ نہیں اختیار کیا اور بہت ہی کم سیاحوں کو ہوٹل کی ایجنسی کے وساطت سے تفریحی مقامات کی سیر کی سہولت استعمال کرتے ہوئے پایا۔ ایسے سیاحوں سے بھی ملاقات ہوئی جو کئی سال سے اغادیر کی سیر کیلئے آرہے تھے۔
دوسرے دن ہم نے ہوٹل کی وساطت سے ایک ٹیکسی بک کرائی جس نے ہمیں ہوٹل سے قریبی مسافت پر واقع پہاڑ کی سیر کرائی اور اس کی چوٹی پر لے گئے۔ جہاں سے شہر اور سمندر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ ترقیاتی کام اب بھی جاری ہیں۔ بظاہر قریب میں کوئی آبادی نظر نہیں آئی لیکن یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ پہاڑ کے دامن میں قبرستان تھا۔ یوں لگا جیسے قبریں باقاعدہ طور پر قطار میں ہیں۔ حیرت ہوئی کہ اتنی بلندی تک وہاں جنازہ کیسے لیا جاسکتا ہے۔ دوسری دلچسپ بات یہ دیکھنے میں آئی کہ پہاڑ کے دامن میں قومی شعار یا نعرے کے طور پر یہ تین الفاظ کندہ تھے۔ اللہ، الوطن، الملک (الملک سے مراد بادشاہ ہے) اسے آپ اہل مراکش کی ترجیحات یا قومی شعار کہہ سکتے ہیں۔ یہ الفاظ اتنی بلندی پر اور اتنے بڑے الفاظ میں کندہ ہیں کہ آپ کو دور سے اغادیر شہر سے واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ پہاڑ سے اترنے کے بعد ہمیں مسجد محمد الخامس لے جایا گیا جو شہر کے وسط میں واقع ہے اور جو مراکش میں دوسری سب سے بڑی مسجد سمجھی جاتی ہے لیکن شومئی قسمت کہ مسجد بند تھی اور ظہر کی نماز کے لئے ابھی ایک گھنٹہ سے زائد وقت باقی تھا۔ کسی طرح مسجد میں مرمت کا کام کرنے والوں سے اجازت لے کر دو رکعت پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ بھی ٹیکسی ڈرائیور کے لئے بے چینی کا باعث بن رہا تھا۔
اس کے بعد ہمیں ایک لیباریٹری لے جایا گیا جہاں ہمیں مراکش کے انتہائی قیمتی، منافع بخش اور صحت افزاء درخت ارکان (Argan) سے تیار کردہ مصنوعات مثلاً تیل، کریم اور دیگر انواع و اقسام کے میک اَپ دکھائے گئے۔ اس انمول اور نایاب درخت جسے شجر حیات بھی کہا جاتا ہے، کی مراکش کے جنوب مغرب میں سال میں ایک یا دو مرتبہ پیداوار ہوتی ہے جس سے بے شمار خاندانوں بالخصوص خواتین کا روزگار وابستہ ہے اور جو مراکش کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کی مصنوعات کی بیرونی ممالک میں فروخت سے مراکش کو 2 سے 3 بلین ڈالر کی سالانہ آمدنی ہوتی ہے اور یہ قومی ملکیت ہے۔ یہ سخت جان پودا ہے جس میں قحط سالی اور ماحولیاتی اور موسمی مشکلات کو سہنے کی صلاحیت ہے۔ یہاں سے نکلنے کے بعد ہمیں سوق (عوامی بازار) لے جایا گیا جہاں پھل اور سبزیوں کے علاوہ مختلف قسم کی چیزوں کی دکانیں تھیں۔ پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں شہر کے مقابلے میں یہاں مناسب نظر آئیں۔ البتہ دوکانوں پر دکاندار سے بارگین کرنی پڑی۔ بازار میں آپ کو تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے کیلئے فری ٹائم کے طور پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہاں یہ ذکرمناسب ہوگا کہ ٹیکسی ڈرائیور آپ کو سیاحتی مقامات پر زیادہ دیر تک ٹھہرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔
دوسرے دن جمعرات تھی اور اس دن ہم نے شہر مراکش (Marrakesh) کی سیر کا پلان بنایا۔ مراکش کے مغرب میں واقع یہ تاریخی شہر بھی دیکھنے کے قابل ہے جہاں بہت سی 260 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اغادیر سے کوچ میں تین گھنٹے کا راستہ ہے۔ مراکش ملک کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ اسے المدینہ العمرا (سرخ شہر) بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کی عمارتیں اور دیواریں سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں۔ مرابطون کا دارالخلافہ بنانے کیلئے یوسف بن تاشقین نے 1062 م میں اس کی بنیاد رکھی۔ شہر دو حصوں میں تقسیم ہے: قدیم اور جدید۔(سلسلہ جاری ہے)