ابن بطوطہ کے دیس میں ایک ناقابل فراموش اور یادگار سفر

   

( تیسری اور آخری قسط)

ابن حاجی گل
آج ہفتہ ہے۔کل ہماری واپسی ہے ۔آج کہاں جائیں۔ہم نے سوچا کیوں نہ ساحل سمندر کی سیر کریں۔چنانچہ ہم نے ایک چھوٹی سی کشتی کرائے پر لی اور سمندر کی سیر کی۔ سمندر کے پانی پر سورج کی کرنیں پڑ رہی تھیں جو انتہائی خوبصورت منظر پیش کررہی تھیں۔سامنے پہاڑ بھی نظر آرہا تھا ، لیکن کشتی میں ڈر بھی لگ رہا تھا۔ واپسی میں ہوٹل کے قریب پہنچے تو سوچاابھی تو آدھا دن باقی ہے، کیا کریں۔فیصلہ کیا کہ مقامی بس میں سفر کا تجربہ کریں۔ لہذا ہم نے ہمارے ہوٹل سے زیادہ دور نہیں، ایک بڑے سوق(عوامی بازار) کا دورہ کیا۔بس آرام دہ اور صاف ستھری تھی، اور اس کا کرایہ بھی بہت معمولی تھا۔ ائرپورٹ کے سوا تقریبا تمام شہروں کے لئے بسیں مل جاتی ہیں، اور ٹیکسیوں کے مقابلے میں کرائے بہت ہی سستے ہیں۔
چند قابل تقلید اور لائق تحسین مثالیں
سیاحتی علاقے اورمسلسل سفر کی وجہ سے مسجدوں میں نماز کے لئے جانے کا بہت کم اتفاق ہؤا۔ جس ہوٹل میں ہم قیام پذیر تھے ، وہاں سے قریب ترین مسجد تقریبا ۱۵ منٹ کے فاصلے پر تھی، لیکن صبح کے وقت اذان کی آواز سنائی دیتی تھی۔فجر کی اذان سے تقریبا آدھا گھنٹے پہلے مؤذن درود و سلام پڑھتے ہیں ۔ جس مسجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق ہؤا، اور تمام مساجد محکمہ اوقات کے ماتحت ہیں، جیسے ہی مسجد میں آپ داخل ہوں گے ، جوتوں کے لئے ایک بڑے باکس میں کپڑے کے تھیلے رکھے ہوتے ہیں، جس میں آپ اپنے جوتے رکھ کر انہیں صف میں اپنے سامنے رکھے ہوئے wooden shoes racksمیں رکھ سکتے ہیں۔ میرے خیال میں اس سے مسجد کو صاف ستھرا رکھنے میں آسانی ہوتی ہے، نکلتے وقت دھکم پیل میں جوتے ڈھونڈنے یاگم ہونے کا خطرہ نہیں ہوتا۔وضو خانے اور استنجا کے لئے الگ چپل مہیا کئے جاتے ہیں، اور مسجد کے خادم اور رضا کار مدد کے لئے موجود ہوتے ہیں۔پانی سے بھرے بڑے بڑے ڈرم رکھے ہوتے ہیں، وضو کے لئے کٹورے استعمال ہوتے ہیں۔ اقامت کہتے وقت مؤذن قد قامت الصلاۃ صرف ایک مرتبہ پڑھتے ہیں، اور بعض نمازیوں کو بغیر ہاتھ باندھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔
مراکش، تیونس ، الجزائر اور موریتانیہ میں لوگ امام مالکؒ کی فقہ کے پیروکار ہیں، اور یہ عجیب حسن اتفاق ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں چاروں ائمہ کی فقہ کے پیروکار پائے جاتے ہیں ۔ مراکش میں صوفیا کے مزارات اور زاویوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دیگر اسلامی ممالک کی طرح یہاں بھی تصوف کا اثرونفوذ ہے۔ ملک کے بادشاہ، جو امیرالمؤمنین کہلاتے ہیں،کے بارے میں سننے میں آیا کہ ان کے محل میں ان کی نگرانی اور موجودگی میں ذکر کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں، جن میں ارکان حکومت کے علاوہ علماء اور مشائخ بھی شرکت کرتے ہیں۔
دوسری قابل غور بات جو مشاہدے میں آئی وہ یہ تھی کہ مراکش کی مساجد میں چندے کا کوئی بکس نظر نہیں آیا، مسجد کے علاوہ، زکوۃ و صدقات کا بھی کوئی بکس نہیں نظر آیا، اور نہ ہی جمعے والے دن مسجد کے کسی اہلکار کو چندہ کرتے ہوئے دیکھا۔ اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یہ کہ مسجد کے تمام اخراجات، بشمول امام، مؤذن اور کارکنان کی تنخواہیں حکومت برداشت کرتی ہے۔ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ امام صاحب کو حکومت کی طرف سے رہائش گاہ بھی مہیا کی جاتی ہے، اور معقول مشاہرہ بھی ادا کیاجاتاہے۔
تیسری لائق تحسین اور قابل تقلید بات یہ دیکھنے میں آئی کہ مساجد میں دن میں دو مرتبہ اجتماعی قرآن خوانی ہوتی ہے۔ حزب الصباح اور حزب المساء : یعنی صبح کے وقت کی تلاوت اور شام کے وقت کی تلاوت۔ فجر کی جماعت کے بعد اور مغرب کی جماعت کے بعد وظائف اور مختصر سی اجتماعی دعا کے بعد امام صاحب کی قیادت میں قرآن پاک کی ایک مخصوص مقدار بلند آواز میں اہل مراکش کے اپنے مخصوص اور منفردلہجے میں تلاوت کی جاتی ہے، جو تقریبا 20 سے 30 منٹ تک جاری رہتی ہے، اور یوں میرے اندازے کے مطابق پورے قرآن پاک کی تلاوت تقریبا ایک مہینے میں پوری کی جاسکتی ہے۔مسجدوں میں خواتین سمیت نمازیوں کی بڑی تعداد کو نماز میں شامل ہوتے ہوئے دیکھ کر روح خوش ہوئی ۔
ایک گاؤں سے گذرتے ہوئے مقامی مسجد میں جمعہ پڑھنے کا اتفاق ہؤا۔یہاں بھی چند غیرمعمولی باتیں مشاہدے میں آئیں۔ امام صاحب کے آنے سے پہلے یہاں بھی اجتماعی طورپر قرآن کی تلاوت میں شرکت کا موقع ملا۔امام صاحب نے لکھا ہؤا خطبہ پڑھا، جسے ہم عربی یا مسنون خطبہ کہتے ہیں، برصغیر اور یوروپی و امریکی ممالک کے برعکس جہاں غیر عربی زبان میں تقریر ہوتی ہے، اور اب تو ان ممالک میں بھی ایک ہی خطبہ عربی اور انگریزی میں پیش کرنے کا رجحان رواج پارہا ہے۔ خطبے سے پہلے مسجد کے ہال سے ملحقہ کمرے میں تین افراد نے یکے بعد دیگرے اذان دی ۔پھر جب مؤذن نے اقامت کہی تو امام صاحب نے جماعت شروع کرنے سے پہلے ایک دعا پڑھی۔پہلے سے تحریر شدہ خطبے کے حق میں اور اس کے خلاف مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک فائدہ تو یہ ہے کہ خطیب نے جو کچھ کہنا ہوتا ہے وہ متعین کرکے لکھی ہوئی صورت میں مجمع کے سامنے پیش کیا جاتاہے، اور خطیب کا اپنے متعین موضوع سے انحراف کرنا ناممکن ہوتا ہے، خطیب صاحب اپنی طبعی آواز اور لہجے میںتحریر کردہ مدعا پیش کرتے ہیں اور حاضرین کو اسے سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے، اور تقریبا پندرہ منٹ میں خطبہ پیش کیا جاتا ہے اور حاضرین کو اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ مسجدیں جماعت سے صرف چند منٹ پہلے کھولی جاتی ہیں اور جماعت کے تھوڑی دیر بعد بند کردی جاتی ہیں۔معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ یہ انتظام احتیاطی طور پر کیاگیا ہے کیونکہ بعض ناپسندیدہ افراد اور گروہ مسجدکو اپنی مخصوص اور فرقہ وارانہ سرگرمیوں کیلئے استعما ل کرتے ہیں جس سے امن وامان کا مسئلہ پیدا ہوتاہے اور دہشت گردی کو تقویت ملتی ہے۔ بعض اوقات قصور چند افراد کا ہوتا ہے لیکن خمیازہ اکثریت کو بھگتنا پڑتا ہے جس طرح ایرپورٹس پر سیکورٹی کے اقدامات اور کاروائیوں سے مسافروں کو گذرنا پڑتاہے۔ امت مسلمہ کیلئے یہ ایک بہت بڑا المیہ اور لمحہ فکریہ ہے۔
سفر سے واپسی پرملے جلے جذ بات تھے۔ اداسی اس بات پر کہ ایک مختصر مگر پرلطف اور خوشگوارسفراختتام کو پہنچ رہاتھا، حسرت اس بات پر کہ کاش کہ ہمارے پاس زیادہ وقت ہوتا توہم مراکش کے عظیم سپوت اور مشہور مسلمان سیاح اور نامور سفرنامہ نویس ابن بطوطہ کے دیس میں مزید کچھ دیکھتے۔ اورخوشی اس بات پر کہ خوبصورت یادوں، تجربات و مشاہدات کے ساتھ ہم اغادیر اور مراکش کو اس امید اور تمنا کے ساتھ الوداع کہہ رہے تھے کہ انشاء اللہ یہ ہمارا مراکش کا آخری سفر نہیں ہوگا بلکہ مستقبل میں بھی اس خوبصورت ملک کی سیاحت کیلئے آتے رہیں گے۔جسمانی راحت کے ساتھ ساتھ ذہنی طور پر بھی تروتازگی محسوس ہورہی تھی،اور اس بات پر اطمینان کہ ہمارے لئے یہ سفر وسیلہ ظفر ثابت ہؤا۔
بے شک زندگی بھی ایک سفرہے ، اور جب انسان یہاں سے رخصت ہوتے ہیں تو بعض حسرتوں اور ندامت کے ساتھ اور بعض آئندہ زندگی میں امیدوں اور اللہ کے وعدوں پر یقین کے ساتھ اس فانی دنیا کو الوداع کہتے ہیں۔ سچ کہا قرآن نے: بے شک یہ زندگی عارضی ہے، محض کھیل، کود اور تماشاہے، اور ابدی زندگی آخرت کی ہے۔ ایک حدیث میں سفر کی طرف رغبت دلائی گئی ہے تاکہ صحت بہتر ہو، اور سلامتی حاصل ہو۔ امام شافعیؒ نے بھی سفرکی ترغیب دلاتے ہوئے اس کے کئی فوائد بیان فرمائے۔(ختم شد)