مہیر شرما
بی جے پی حکومت نے شہریت ترمیمی بل کا قانون بنانے کی تیاریاں کرتے ہوئے ہندوستان کو بدامنی میں ڈکھیل دیاہے جیسا کہ یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے تب سے ہی شمالی ہندوستان میں مخالفت اور احتجاج شروع ہوچکے ہیں اور اب یہ احتجاج پر تشدد ہوچکا ہے۔ تریپورہ کے دو اضلاع میں تاجروں پر حملہ ہوا ، دکانیں نذر آتش ہوئیں ، جب کہ شہریت (ترمیمی) بل کے خلاف احتجاج کے طور پر گوہاٹی کی سڑکوں پر ٹائر جلائے گئے ، پتھروں اور آنسوگیس کے ماحول نے جنگ کے میدان کا منظر پیش کیا ہے ۔ شمال مشرقی علاقوں میں حالات کشیدہ ہوئے ہیں ۔ اس بل کے خلاف مظاہروں کے پیش نظر گزشتہ روز ہی تری پورہ میں دوپہر 2 بجے سے انٹرنیٹ خدمات 48 گھنٹے کے لئے معطل کردی گئیں۔
ایک سینئر پولیس عہدیدار کے بموجب کہ ایک پھل فروش جس نے تریپورہ کے ضلع ڈھلائی کے منوگٹ بازار میں اپنا اسٹال کھولا تھا شدید زخمی ہوگیا جب مظاہرین نے تیز دھار ہتھیاروں سے اس کے سر پر مارا۔ مظاہرین کے علیحدہ حملوں میں تین دیگر تاجر زخمی ہوئے ، جنھوں نے قبائلی جماعتوں کے بند کے مطالبے کے خلاف شمالی تریپورہ میں اپنی دکانات کھولی تھیں۔ کھولی ہوئی دکانوں کو بھی آگ لگایا توڑ ڈالا۔ آتشزدگی میں کم از کم آٹھ موٹر بائک تباہ ہوگئے۔ آسام میں شمال مشرقی طلباء تنظیم (نیسو) کے ذریعہ طلب کئے گئے 11 گھنٹے کے بند کے دوران کم از کم ایک ہزار افراد کو پولیس نے حراست میں لیا ، جن میں با اثر آل آسام طلباء یونین (آسو) ایک اہم حلقہ ہے۔ گوہاٹی اس احتجاج کا مرکز رہا۔ پولیس نے ریاستی بسوں اور دیگر سرکاری گاڑیوں کو نشانہ بنانے والے مظاہرین کے گروپوں کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارچ کا سہارا لیا اور ہوا میں فائرنگ کی۔ جلوکبری میں ، نوجوانوں کے ایک گروپ نے وزیر کا راستہ روکا اور ان کی رہائش گاہ کے نزد شہریت بل کے خلاف نعرے بازی کی۔ ایک اورگروپ نے گوہاٹی سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ، ملکہ اوجا کی رہائش گاہ کے دروازے کو نقصان پہنچایا اور اس کا نشانہ جلایا۔ دیس پور کے قریب پولیس کے ساتھ جھڑپ میں چار مظاہرین زخمی ہوئے ، جہاں ریاستی سکریٹریٹ اور اسمبلی کی عمارت واقع ہے۔اس گروپ نے وزیر تعلیم سدھارتھا بھٹاچاریہ کے قافلے کو سکریٹریٹ کمپلیکس میں داخل ہونے سے روک دیا۔
قومی ایوارڈ یافتہ فلمساز جہنو بڑوا نے شہریوں کے بل کے خلاف مہم کی قیادت کرنے والی تنظیموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ انہوں نے آسام کے آنے والے فلم ایوارڈز سے پرینکا چوپڑہ کی تیار کردہ اپنی فلم بھوگہ خیرکی (بروکن ونڈو) واپس لے لی ہے۔ سیاسی رہنماؤں نے بھی غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم موجودہ صورتحال سے بہت ناخوش ہیں۔ یہ بل نہیں ہونا چاہئے تھا۔ ہم نے (بی جے پی) قیادت پر یقین کیا لیکن وہ ہمیں سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ایسی صورتحال میں ، میں اس طرح کے پروگرام میں حصہ نہیں لینا چاہتا ہوں۔ آسام کے ایک اور اداکار برشارانی بشایا اور متعدد دیگر فنکار احتجاج کے لئے شہر کے چاندماری علاقے میں جمع ہوئے۔ دن کے وقت ٹرین یا ہوائی جہاز سے آنے والے مسافروں کے لئے خانگی اور تجارتی گاڑیوںسے بھی ریلوے اسٹیشن اور ایرپورٹ تک جانے کے لئے شام تک ایک طویل انتظارکرنا پڑا۔انتظامیہ نے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیا لیکن کوئی بھی سفر کے درمیان ہونے والا خطرہ مول نہیں لیا۔ سٹی پولیس کمشنر دیپک کمار نے کہا کہ تین بسوں پر پتھراؤکیا گیا تھا لیکن کسی مسافر کو چوٹ نہیں پہنچی۔ ہوم ٹرف ڈیبروگڑھ ، مکمل طور پر بند تھا۔ مظاہرین نے تقریبا ہر ضلع میں شاہراہوںکو بند کردیا۔کالعدم الفا کا ایک پرچم دبرگڑھ قصبے میں ایک نچلے پرائمری اسکول کے باہرلہرارہا تھا جس کی کسی نے پولیس کو اطلاع دی۔ پرچم لہرانے پر ڈیبرگڑھ کے ایس پی گوتم بورہ نے کہا یہ شرپسند عناصرکی کارستانی ہے۔
شہریت ترمیمی بل پر پی جے پی نے ہندوستان کے پر امن ماحول کو بگاڑا ہے اس کے خلاف احتجاج ابھی تو آسام میں شروع ہواہے اور اس احتجاج کی آگ سارے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو اس پر حیرت نہیں ہوگی ۔ بی جے پی پے درپے متنازعہ قوانین کو منظورکرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہی ہے اور جہاں بھی اس کے خلاف آواز بلند ہورہی ہے وہاں وہ سب سے پہلے انٹرنیٹ خدمات کو معطل کررہی ہے تاکہ اس کے خلاف بلند ہوتی صداؤں کو کچلا جاسکے ۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ حکومت نے اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کیلئے سب سے پہلے انٹرنیٹ خدمات کو ختم کیا ہے بلکہ کشمیر میں آرٹیکل 370 برخاست کرنے سے قبل بھی حکومت نے سب سے پہلے انٹرنیٹ خدمات کو ہی بند کیا تھا جو کہ آج تک وادی میں بحال نہیں ہوئی ہے۔ کشمیر میں انٹرنیٹ کی ناکہ بندی کی وجہ سے موبائل فون کی فروخت میں شدید کمی نے سینکڑوں افراد کو ملازمتوں سے محروم کردیا۔ سری نگر میں موبائل آؤٹ لیٹ پر کام کرنے والے زیادہ تر ملازمین کو اگست کے بعد سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔سری نگر کے ریذیڈنسی روڈ پر موبائل فون آؤٹ لیٹ کے سیلزمین شوکت احمد ڈار کی آپ بیتی سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر میں موبائل اور انٹرنیٹ کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو کیا کچھ برداشت نہیں کرنا پڑرہا ہے۔ احمد کو یا تویہ ملازمت چھوڑنا ہوگا یا ٹرانسفر لینا ہے۔ چاروں افراد کے کنبے کے لئے تن تنہا روزگار کمانے والے احمد جیسے ایسے ہزاروں خاندان ہیں جو مرکز میں بی جے پی کی جانب سے 5 اگست کو آرٹیکل 370 کو کالعدم قرار دینے کے بعد اپنی تنخواہوں سے محروم ہیں حالانکہ احمد جیسے افراد کو ماہانہ 14ہزار روپے تنخواہ نہیں ملی ہے۔ ان افراد کی تنخواہوں کو جاری نہ کیے جانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ کشمیر میں انٹرنیٹ ناکہ بندی کی وجہ سے آن لائن اپنی حاضری کو نشان زد نہیں کر سکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موبائل فون کی فروخت میں 90 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔احمد کا کہنا ہے کہ اگر میں 26 موبائیل فروخت کرتا ہوں تو تب ہی میری تنخواہ میرے اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہے لیکن کشمیر میں اب چونکہ انٹرنیٹ بند ہے لہذا موبائیل کی فروخت میں کمی واقع ہوئی ہے اوریہ نوجوان تقریبا بے روزگار ہوگئے ہیں۔ ایک اور ملازم ارسلان شاہ کی بھی ایسی ہی کچھ داستان ہے جس میں اس نے کہا کہ اس کی تنخواہ اس وقت ادا ہوگی جب وہ ایک ماہ میں 26 فون فروخت کرنے کا ہدف حاصل کرے گا۔ ارسلان کے والد کو امراض قلب کا مسئلہ ہے اور وہ موبائل کی ملازمت چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں۔ ارسلان نے کہا یہ ایک سخت صورتحال ہے ، میں نے اس سے پہلے کبھی بھی ایسا خراب وقت نہیں دیکھا تھا۔ پورے کشمیر میں موبائل فون کی مختلف شاپوں میں لگ بھگ 8000 افراد ملازم ہیں۔ارسلان نے کہا ہم آج کل کوئی موبائل فون فروخت نہیں کرپارہے ہیں لہذا اس میں ترغیب دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ سری نگر میں سیمسنگ دکانوں کے مالک منیر قریشی نے صورت حال کا ایک اور باب کھولا ہے کہ وہ انٹرنیٹ ناکہ بندی سے پہلے اپنے دو دکانوں میں اوسطا 150 فونس فروخت کرتے تھے۔ اب یہ دن میں پانچ فون ہی فروخت ہورہے ہیں۔ ہمارے علاقائی تقسیم کار ماہانہ 25 کروڑ میں بلنگ کرتے تھے ، اب یہ صرف 85 لاکھ روپے ماہانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں 1450 سیمسنگ آؤٹ لیٹ ہیں لیکن کاروبار میں کمی کے سبب سیمسنگ نے کشمیر کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا ہے۔وہ ایک کوریائی کمپنی ہے ، وہ فروخت چاہتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے آغاز کے بعد اس کی بازیابی میں کم از کم ایک سال لگے گا۔ کشمیر نے ماضی میں اشتعال انگیزی اور طویل وقت کیلئے بد امنی دیکھی ہے لیکن صورتحال کبھی بھی ایسی خراب نہیں رہی۔اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو موبائل شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے پاس کاروبار تبدیل کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ حکومت کشمیر میں صرف انٹرنیٹ معطل کرنے کی بات کرتی ہے لیکن اس کے جواثرات مرتب ہورہے ہیں اس کی وجہ سے کشمیریوں کی روزی روٹی سنگین صورت حال سے دوچار ہے۔
