رویش کمار
سپریم کورٹ کا فیصلہ کیسا ہے؟ قبل اس کے کہ آپ جواب دیں، لوگ خود کہتے ہیں کہ اس جھگڑے کو ختم کردیں۔ لیکن پھر بھی سوال تو برقرار رہتا ہے کہ فیصلہ کس قسم کا ہے۔ یہ واقعی تعریف کا معاملہ ہے کہ عوام نے اس کا سامنا صبر و تحمل اور سوجھ بوجھ کے ساتھ کیا۔ ویسے عوام فیصلے کے بارے میں بھی جاننا چاہتے ہیں اور وہ فیصلہ پر تبصروں سے گریز نہیں کرتے۔ جب یہ فیصلہ جو اتفاق رائے سے کیا گیا، قانون کی جماعت میں پڑھایا جائے گا، تب طلبہ میں شاید ہی اتفاق رائے دیکھنے میں آئے گا۔
یہ تاریخی فیصلہ ہے، اس لئے نہ صرف آج بلکہ طویل مدت تک اس کا جائزہ لیا جاتا رہے گا۔ ایسا مانا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ کی تاریخ میں اس طرح کا فیصلہ کبھی نہیں ہوا۔ 2017ء میں 9 ججوں نے حق رازداری کے بارے میں فیصلہ سنایا تھا۔ اتفاق رائے تھا لیکن پہلے صفحہ سے ہی واضح تھا کہ فیصلہ کا کونسا حصہ کس جج نے لکھا ہے۔ بابری مسجد فیصلہ میں ایسا نہیں ہے۔
اسی کیس میں الہ آباد ہائی کورٹ نے زائد از 8,000 صفحات پیش کئے تھے، یہ اپنی اپنی رائے کا معاملہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ لگ بھگ آٹھ گنا کم یعنی 1,045 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کیلئے کم محنت ہوگی، لیکن یہ اچھا ہوگا کہ آپ خود اپنے طور پر اس فیصلہ کو پڑھیں۔ آپ کو بہت کچھ جانکاری حاصل ہوگی۔ صرف سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کو نظرثانی کی اجازت دے سکتا ہے۔ عدالت سے اس کیلئے درخواست کی جاسکتی ہے اور عام لوگ بھی عدالتی فیصلہ کا اپنے تبادلہ خیال میں جائزہ لے سکتے ہیں۔ عام طور پر سیاستدان طے کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ فیصلہ کے کس حصے پر سیاست کی جائے اور کس پر نہیں۔
بابری مسجد۔ رام جنم بھومی کیس میں عدالت کا فیصلہ کچھ ایسا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں نے کہا کہ ہم اس پر سیاست نہیں کریں گے، اسے قبول کرلیں گے۔ لیکن جب سپریم کورٹ کا فیصلہ 2018ء میں سبری ملا مندر کے تعلق سے پیش آیا تھا، خود بی جے پی اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے عوام کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ تب نہیں کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کا اس فیصلے کے تعلق سے بیان رہا کہ ہم ان کے ساتھ ہیں جو اس فیصلے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ شاہ نے سبری ملا کیس میں ٹوئٹ کیا تھا کہ قوم نے مذہب، اعتقاد اور اخلاص اور حکومت کیرالا کے ظلم کے درمیان لڑائی کو دیکھا ہے۔ حکومت ایپا کے بھکتوں کو دبانے کیلئے اپنے اقتدار کا استعمال کررہی ہے۔ اُس وقت امیت شاہ نے نہیں کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے ساتھ ہیں۔ یہ نہیں کہا گیا کہ حکومت کیرالا کو سپریم کورٹ فیصلہ کی تعمیل کرانا چاہئے۔ مارچ 2018ء میں ایس سی ایس ٹی ایکٹ کے کیس میں سپریم کورٹ نے رولنگ دی کہ کوئی بھی عوامی خدمت گزار کو تحقیقات کے بغیر گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ اس فیصلے کے خلاف ہندوستان میں احتجاج کے ساتھ تعطل آیا۔ اس کے نتیجے میں 11 افراد مارے گئے۔ ایس سی ایم پیز پر دباؤ بڑھا اور حکومت کو یہ فیصلہ پارلیمنٹ کے اندرون بدلنا پڑا۔ اب سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو بدل دیا ہے۔ دو جج کی بنچ کے فیصلے کو تین جج کی بنچ نے تبدیل کردیا ہے۔
جب سیاسی پارٹیاں کہتی ہیں کہ کسی سپریم کورٹ فیصلہ پر سیاست نہ کی جائے، تب اس میں ان کی سیاست مضمر ہوتی ہے۔ لہٰذا، کسی فیصلہ کا جائزہ لینا دانشمندانہ جمہوریت کی علامت ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے اصل حصے کی شروعات انصاف، مساوات اور اچھے عدل کے ساتھ کی ہے، جس پر سنی وقف بورڈ کے وکیل راجیو دھون نے مباحث کے دوران روشنی ڈالی تھی۔ سپریم کورٹ فیصلہ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ یہ 4 صدیوں پرانا تنازع ہے۔ اس درمیان مغلوں نے ہندوستان پر حکمرانی کی، ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلط رہا، برطانوی راج قائم ہوا، اور پھر آزاد ہندوستان کا دستور نافذ العمل ہوا۔ متنازع کیمپس 1861ء سے سرکاری اراضی پر رہا تھا۔ تاہم، حکومت نے کبھی ادعا نہیں کیا کہ اراضی ہماری ہے۔ 1861ء ، 1893-94 اور 1936-37ء کے ریونیو ریکارڈز میں اس مقام کو جائے پیدائش کہا گیا تھا۔ ریونیو ریکارڈ میں کسی بھی مسجد کا تذکرہ نہیں ہے۔ یہ ثبوت کہ وہاں ایک مسجد قائم تھی، 1856ء کے اودھ الحاق کے بعد پایا گیا۔ 1856ء سے قبل کوئی شاہی فرمان پیش نہیں کیا جاسکا۔ اس کے بعد یہ دلیل پیش کی گئی کہ چونکہ وہاں نماز ہوتی رہی تھی، اس لئے اسے وقف اراضی سمجھا جائے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ تب یہ دیکھنا ہے کہ آیا اس مقام کو نماز کیلئے استعمال کیا گیا یا پوجا کیلئے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ 1528ء اور 1856ء کے درمیان نمازوں کی ادائیگی کا ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ لہٰذا، یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اس کا استعمال مذہبی نوعیت کا تھا۔ 1856ء میں جب ریلنگ تعمیر کی گئی، کسی نے بھی اس اراضی کی ملکیت کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ برطانوی راج کے دوران انگریزوں نے بیرونی برآمدے میں ہندوؤں کے مذہبی حق کو تسلیم کیا۔ مسلمانوں نے بیرونی برآمدے پر دعوے داری پیش نہیں کی۔ اور نا ہی وہ اسے 1857ء کے بعد استعمال کررہے تھے۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے اے ایس آئی سے کہا تھا کہ آیا بابری مسجد کی تعمیر خالی زمین پر کی گئی یا وہاں پہلے سے کوئی ڈھانچہ تھا۔ اے ایس آئی نے اپنی رپورٹ میں نہیں کہا کہ مسجد کی تعمیر مندر کو منہدم کرکے کی گئی۔ تاہم اے ایس آئی نے قطعیت سے کہا کہ زیرزمین پرانی عمارتوں کی باقیات پائے گئے جو مندروں کی مانند ہیں۔ اے ایس آئی نے کہا کہ ان باقیات کی تعمیر کا دور 12 ویں صدی کا معلوم ہوتا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ اے ایس آئی رپورٹ سے واضح نہیں ہے کہ 12 ویں صدی کے ڈھانچے کو مسجد میں استعمال کیا گیا۔
تاہم، اے ایس آئی نے ٹھوس انداز میں کہا ہے کہ مسجد کی تعمیر خالی زمین پر نہیں کی گئی۔ عدالت کا ماننا ہے کہ آثار قدیمہ کا ثبوت یہ تو ثابت نہیں کرتا کہ مسجد کیلئے ہندو مندر کو مسمار کیا گیا۔ سیاست کی اس بڑی جھوٹ کو عدالت نے اپنے فیصلے میں صاف کردیا ہے۔ شمالی ہند میں مندر توڑ کر مسجد تعمیر کرنے کے نام پر جانے کتنا ہنگامہ ہوتا رہا ہے لیکن اسے سپریم کورٹ میں ثابت نہیں کیا جاسکا۔ سپریم کورٹ فیصلہ کا ایک حصہ زیادہ اہم ہے۔
ایسا ثبوت ہے کہ 16 ڈسمبر 1949ء کو وہاں نماز ادا کی گئی۔ وہاں 22/23 ڈسمبر 1949ء درمیانی شب مورتی بٹھائی گئی، جس کے بعد نمازیں روک دی گئیں۔ مسلمانوں کا اس جگہ سے قانون کی اساس پر تخلیہ نہیں کیا گیا ، بلکہ انھیں عبادت گاہ کے مرکزی مقام سے ہٹا دیا گیا۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ 22-23 ڈسمبر 1949ء کی رات مسجد میں غیرقانونی طور پر مورتی رکھی گئی۔ تب کیا عدالت کو یہ نہیں کہنا چاہئے تھا کہ آزاد ہندوستانی عدالتوں کو اس واقعہ کا نوٹ لینا چاہئے کہ آیا یہ غیرقانونی حرکت ہوئی اور مسلمانوں کے حق میں فیصلہ دینا چاہئے۔ جب مورتی کو ہٹانے کے احکام جاری کئے گئے، متعلقہ ضلع نظم و نسق نے مورتی کو ہٹانے سے انکار کردیا۔ اگر وہ غیرمنصفانہ رہا، تو پھر انصاف کیا ہونا چاہئے؟ بابری مسجد کو 1992ء میں منہدم کیا گیا حالانکہ تب وہاں جوں کا توں موقف برقرار رکھنے کے احکام لاگو تھے۔ اگر اسے مسمار نہ کیا جاتا تو اس کیس کا فیصلہ کیا ہوتا؟ لیکن سپریم کورٹ نے اس واقعہ کے بارے میں بھی یکساں اتفاق رائے سے فیصلہ دیا ہے۔ ایودھیا کیس کا فیصلہ مندر کے حق میں آیا ہے جبکہ دستور کی حدوں کو 1949ء اور 1992ء میں توڑا گیا تھا۔
قانون کے ان مجرمین کا کیا ہوگا جنھیں سپریم کورٹ نے مسجد میں غیرقانونی طور پر مورتی رکھنے اور پھر مسجد کو شہید کرنے پر خاطی کہا ہے۔ اپریل 2017ء میں سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ بابری مسجد انہدام کیس میں ٹرائل کو اندرون دو سال مکمل کرلیا جانا چاہئے۔ دو سال ہوچکے ہیں۔
متنازع اراضی پوری یکساں زمین ہے۔ ریلنگ 1856-57ء میں بنائی گئی، لیکن کوئی قطعہ اراضی یا ملکیت تقسیم نہیں کی گئی تھی۔ حتیٰ کہ سنی سنٹرل وقف بورڈ اس اراضی پر قبضہ کا اپنا حق ثابت نہیں کرسکا۔ ہندوؤں کا بیرونی برآمدے پر مسلسل قبضہ رہا اور وہاں وہ پوجا کرتے رہے ہیں۔ داخلی برآمدے کے تعلق سے ہندو اور مسلم فریقوں میں تنازعات ہوئے۔ 16 ڈسمبر 1949ء تک نماز ہوئی لیکن سپریم کورٹ فیصلہ بیرونی برآمدے پر مسلسل قبضے کی اساس پر ہندوؤں کے حق میں دیا گیا ہے۔
[email protected]
