ڈیرک اوبرئین
ہمارے ٹی وی چیانلوں پر ایسی کہانیوں یا خبروں کو پیش نہیں کیا جاتا جو کبھی پرائم ٹائم کی زینت ہوا کرتی تھیں۔ آج پرائم ٹائم پروگرامس میں عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے، ان کے درمیان عداوت پیدا کرنے اور اشتعال دلانے والے مباحث کو جگہ دی جارہی ہے جبکہ غربت بھوک و افلاس، صحت و تعلیم و مختلف سماجی برائیوں اور لعنتوں سے متعلق خبروں کو یکسر نظرانداز کردیا جارہا ہے۔ میں آپ کو ایک ایسی ہی کہانی سے واقف کرواتا ہوں جو رات 9 بجے کی خبروں میں جگہ نہیں پائے گی، لیکن اچھا ہوا کہ علاقائی زبان کے بعض اخبارات میں (ہاں ان میں ابھی تک صحافتی ذمہ داریوں یا فرائض کی انجام دہی کا جذبہ موجود ہے) شائع ہوئی ہے جس میں بنایا گیا ہے کہ مرکزی حکومت نیشنل فوڈ سکیورٹی ایکٹ (NFSA) کے ذریعہ فروخت کئے جانے والے چاول، گیہوں، دالوں اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 7 روپئے تک اضافہ کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ یہ اناج ترجیحی بنیادوں پر انتہائی غریب خاندانوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس ہفتہ میں نے اپنے کالم کا موضوع غذائی عدم تحفظ یا عدم سلامتی رکھا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2020ء میں پردھان منتری غریب یوجنا (PMGKY) شروع کی گئی اور اب اس کے دو سال ہورہے ہیں۔ اسی یوجنا کا مقصد غریبوں کو اضافی غذائی رعایتیں فراہم کرنا تھا۔ یہ اسکیم 6 ماہ کے دورانیہ کے حساب سے منظر عام پر آئی اور مارچ میں 6 مرتبہ اس میں توسیع کی گئی اور جس کی میعاد یا مدت اسی ماہ ختم ہونے والی ہے۔ اگرچہ یوجنا شروع کی گئی لیکن غریبوں کی مناسب غذا تک رسائی کے معاملے میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ آیئے شروع کرتے ہیں، مہنگائی سے۔ اگر دیکھا جائے تو ریٹیل شعبہ میں مہنگائی کی شرح 7% ہے۔ آر بی آئی نے جس کا انتباہ دیا تھا، یہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ صارفین غذائی اشیاء کیلئے زیادہ رقم ادا کررہے ہیں۔ دیہی افراط زر کی شرح شہری علاقوں میں پائی جانے والی افراط زر کی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ گزشتہ ماہ اس کے ساتھ صنعتی پیداوار میں بھی گراوٹ آئی۔ یہ اشارہ دیتے ہوئے کہ صارفین کی طلب کا فقدان پایا جاتا ہے اور روزگار کی شرح بھی گرگئی ہے، بتایا جارہا ہے کہ ڈالرس کے مقابلے روپئے کی قدر میں بھی گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ آپ کو یہ بھی یاد دلانا ضروری ہے کہ بھوک کے عالمی عشاریہ 2021ء میں جملہ 116 ملکوں میں ہندوستان 101 مقام پر آگیا جبکہ 2020ء میں ہمارے ملک کا مقام 94 واں تھا۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ وزارت بہبود خواتین و اطفال نے اسے یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ FAO کا طریقہ کار غیرسائنٹفک ہے، تاہم اس ضمن میں دیگر جو رپورٹس منظر عام پر آئیں، ان میں ایسے ہی اعداد و شمار ظاہر کئے گئے ہیں۔ غذائی سلامتی اور تغذیہ سے متعلق عالمی رپورٹ جو اقوام متحدہ کی 5 ایجنسیز کی جانب سے شائع کروائی گئی ہے۔ اس میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں ہر 10 افراد میں سے 4 افراد غذائی عدم سلامتی سے متاثر ہوئے۔ یہ سال 2019-21ء میں ہوا ہے۔ آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ دنیا میں غذائی لحاظ سے جو لوگ غیرمحفوظ ہیں۔ ان میں سے دوتہائی سے زیادہ آبادی ہندوستان میں پائی جاتی ہے۔ بہرحال موسمی خرابی کے باعث ہندوستان میں گیہوں کا ماحول جو 2021-22ء میں 43 ملین ٹن تھا، اس میں 56% کی کمی آئی اور وہ 2022-23ء میں 19 ملین ٹن ہوگیا۔ ہندوستان نے رواں سال کے اوائل میں گیہوں کی برآمد پر بھی پابندی عائد کردی تاکہ ملک میں گیہوں کا بحران پیدا نہ ہو۔ اب تو ملک میں چاول کی 10-12 ملین ٹن پیداوار کم ہونے کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مختصر سی مدت میں ان مسائل پر قابو نہیں پایا جاتا جو ماحولیاتی تبدیلی سے جڑے ہوتے ہیں لیکن مرکزی حکومت کو چاہئے کہ اپنے شہریوں کی غذائی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ بتایا جاتا ہے کہ یکم جولائی تک مرکزی حکومت کے پاس4.7 کروڑ ٹن غذائی اجناس کا اسٹاک موجود تھا اور پرائم منسٹر غریب کلیان اسکیم میں آخری مرتبہ کی گئی توسیع سے سرکاری خزانہ پر 88,000 کروڑ روپئے کا بوجھ پڑا جو سال 2019-20ء میں معاف کردہ کارپوریٹ ٹیکس ایک لاکھ کروڑ سے کچھ کم ہے۔ مغربی بنگال جیسی کچھ ریاستیں ہیں جو غریبوں کو ان کی دہلیز پر کھاد یا ساتھی اور دوارے راشن اسکیمات کے تحت مفت راشن فراہم کررہی ہے۔ اگر NFSA کے تحت اناج کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے تو اس سے غریب شہریوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت کو یہ جان لینا چاہئے کہ آزادی کا امرت مہا اتسو بھوک کے چلتے نہیں منایا جاسکتا ہے۔