اب وقت ہے، وقت کے تقاضوں سے بغاوت کرنا…

   

محمد مبشر الدین خرم
ہندستان میں ’بھارت رتن‘ کا نام سنتے ہی جن چہروں کا تصور ذہنوں میں ابھرتا تھا وہ قابل احترام و تعظیم چہرے ہوا کرتے تھے اوربھارت رتن کے اعزاز سے جن لوگوں کو نوازا جاتا تھا ان کی خدمات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا تھا بلکہ ان کی شخصیت پر اعتراض کی جرأت کسی کی نہیں ہوتی تھی لیکن اب اس اعلیٰ ترین اعزاز کی بھی وقعت جس انداز میں گھٹائی جا نے لگی ہے اس سے انداز ہوتا ہے کہ انتخاب کرنے والوں کی ذہنیت کس قدر پراگندہ ہوچکی ہے۔ بھارت رتن کا نام سنتے ہی معمار دستور ہند ڈاکٹر بی آر امبیڈکر‘ مدر ٹریسا‘بابائے میزائل ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام ‘ سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان‘ ڈاکٹر ذاکر حسین‘ ونابھا بھاوے‘ ماہر معاشیات امرتیہ سین‘ مولانا ابوالکام آزاد‘ استاد بسم اللہ خان ‘ لتا منگیشکر کے علاوہ دیگر نام ذہنوں میں ابھرتے تھے لیکن 2014 کے بعد ملک جس راہ پر چل پڑا ہے اس کے بعد اس اعلیٰ ترین اعزاز کی اہمیت و وقعت بھی سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہونے لگی ہے اور اس ایوارڈ کے ذریعہ بھی رائے دہندوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جانے لگی ہے کیونکہ اب اس ایوارڈ کے لئے جن لوگوں کا انتخاب کیا جانے لگا ہے اس کے پس پردہ مقاصد پر کھل کر اگر بات کی جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ملک میں اب اعلیٰ ترین اعزاز کا استعمال بھی برسراقتدار جماعت سیاسی مقاصد کے لئے کرنے لگی ہے اور اس پر انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے اور نہ ہی جن لوگوں کو اعزاز دیا جا رہاہے ان کے افراد خاندان اس موقف میں ہیں کہ وہ اس سیاسی چالبازیوں کو مسترد کرنے کے لئے کھل کر سامنے آئیں ۔
2014 عام انتخابات کے بعد ملک نے جو کروٹ لی ہے اس کے اثرات 10 برسوں میں بتدریج سامنے آنے لگے ہیں اورعالمی اداروں کی جانب سے ملک میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم پر تشویش کا اظہار کیا جانے لگا ہے لیکن اس کے باوجود حکومت کی جانب سے ان مسائل پر کسی بھی طرح کے ردعمل کا اظہار کرنے کے بجائے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ ہندستان میں مسلمانوں یا اقلیتوں پر کسی بھی طرح کے کوئی مظالم نہیں ہو رہے ہیںبلکہ حکومت کی جانب سے اقلیتوں اور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر آواز اٹھانے والوں پر مظالم کا سلسلہ شروع کیا گیا جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔ مسلمانوں کو گائے کے گوشت کے نام پر ماب لنچنگ کے ذریعہ ہلاک کرتے ہوئے نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی کوششوں کے خلاف ’’کاروان محبت ‘‘ کا اہتمام کرنے والے سابق آئی اے ایس عہدیدار ہرش مندر کے گھر اور دفتر پر دھاوے ‘ گجرات فسادات کے مظلومین کے لئے انصاف کی جدوجہد کرنے والی خاتون آہن تیستا سیتلواد کی گرفتاری ‘ عوام کے درمیان سیاسی شعور اجاگر کرتے ہوئے انسانی اخوت و بھائی چارہ کی عملی کوشش کے تحت ’میرے گھر آکر تو دیکھو‘ پروگرام ملک بھر میں چلانے والی شبنم ہاشمی کی تنظیم ’’انہد‘‘ کے ایف سی آر اے کی تنسیخ ‘ اترپردیش میں بلڈوزر کی سیاست پر آواز اٹھانے والے 46 صحافیوں کے مکانات پر پولیس کے دھاوے کرتے ہوئے عوام کی آواز کو کچلنے کی کوشش کرنے والی حکومت کی جانب سے ’بھارت رتن ‘ کے لئے جو انتخاب عمل میں لائے جا رہے ہیں وہ بھی دراصل ایک خاموش پیغام ہے۔
حکومت ہند ’بھارت رتن‘ کے انتخاب کے لئے جن لوگوں کا انتخاب کیا جا رہاہے اس کے ذریعہ نہ صرف سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے بلکہ برسراقتدار سیاسی جماعت کی تائید وحمایت اس اعلیٰ ترین اعزاز کی قیمت کے طور پر تعین کیا جا نے لگا ہے۔بھارت رتن کے سیاسی انتخاب سے محض سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے بلکہ ہندستان کے موجودہ ماحول میں ملک میں بسنے والی دوسری بڑی اکثریت کے لئے یہ ایک خاموش پیغام بھی دیا جا رہاہے کہ حکومت اب ان لوگوں کو اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازنے لگی ہے جن لوگوں نے اس ملک میں مسلمانوں کو زخم دیئے ہیں ۔ حکومت کی جانب سے ایسے لوگوں کے انتخاب کے ذریعہ جو مثال قائم کی جا رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں کچھ عجب نہیں ہوگا جب پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور کرنل پروہت کے ناموں کو اس اعلیٰ ترین اعزاز کے لئے منتخب کیا جائے گا۔ 2014 کے بعد سے ہی مختلف گوشوں بالخصوص ہندستانی جمہوریت کی بقاء کے لئے جدوجہد کرنے والوں کی جانب سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ہندستانی جمہوریت خطرہ میں ہے ‘ بعض گوشوں نے ملک کے دستور کے خطرہ میں ہونے کی پیش قیاسی کی تھی ‘ دانشوروں نے ملک کے بھائی چارہ کو لاحق خطرہ سے متنبہ کرتے ہوئے ہندستان کے خمیر کے تحفظ کے لئے جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا تھا لیکن ان تمام کی آواز ’’نقارہ خانہ میں طوطی کی بولی ‘‘ کی طرح ثابت ہوئی اور سیاسی چالبازوں نے فرقہ وارانہ منافرت اور زہر افشانی کے ذریعہ ان آوازوں کو دباتے ہوئے 10 سال تک اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔
جمہوریت کے 4 ستون قانون ساز ادارے‘ عدلیہ ‘ افسرشاہی اور میڈیا پر مخصوص ذہنیت نے اپنے قبضہ کے بعد اب عملی طور پر ہندستان کے خمیر کو نقصان پہنچانے کا عمل شروع کردیا ہے۔ 2014 کے بعد بھارت رتن کے لئے جن لوگوں کا انتخاب کیا جانے لگا ہے اس کے ذریعہ یہ پیغام دیا جانے لگا ہے کہ ملک ایک مخصوص نظریہ کے پروردہ لوگوں کو ہی بھارت رتن کے طور پر تسلیم کرسکتا ہے ۔ جن میں ناناجی دیشمکھ ‘ اٹل بہاری واجپائی ‘ لعل کرشن اڈوانی ‘ نرسمہا راؤ جیسے لوگ شامل ہیں۔’بھارت رتن‘ کی فہرست میں ان لوگوں کو شامل کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت اب گولوالکر اور ساورکر کو بھارت رتن کی فہرست میں شامل کرنے کے نظریہ کو قابل قبول بنانے کی کوشش میں مصروف ہے بلکہ نیلسن منڈیلا‘ سر سی وی رمن‘ ستیہ جیت رے ‘ سروے پلی رادھا کرشنا جیسی غیر متنازعہ شخصیات کی فہرست میں متناعہ کرداروں کو شامل کرتے ہوئے نہ صرف ملک میں ایک طبقہ کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کی جار ہی ہے بلکہ اب تک جن لوگوں کو ’بھارت رتن‘ کا اعزاز دیا گیا ہے ان کے قد کو کم کرنے کی منظم انداز میں سازش کی جا رہی ہے جو کہ ملک کے اعلیٰ ترین اعزاز کی قدر ومنزلت کو گھٹانے کے مترادف ہے۔حکومت اگر اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے ایسا کرتی تو اسے نظرانداز بھی کیاجاسکتا تھا لیکن جن مقاصد کے لئے یہ کیا جارہا ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے ‘ جیسا کے ابتداء میں کہاجاچکا ہے کہ یہ ایک خاموش پیغام ہے اور اس کے ذریعہ بھارتیہ جنتا پارٹی ہندستانی تاریخ کے متنازعہ شخصیات کو معززترین شخصیات کی فہرست میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
بابری مسجد سانحہ 6ڈسمبر 1992 کو کوئی فراموش نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس میں ملوث کرداروں کو بھلایا جاسکتا ہے ۔ 1992 میں نرسمہا راؤ وزیر اعظم تھے اور وہ بابری مسجد کی شہادت کو روک نہیں پائے بلکہ خاموش تماشائی بنے رہے۔ اٹل بہاری واجپائی اور لعل کرشن اڈوانی نے کارسیوکوں کو اکسانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی بلکہ مسجد کی شہادت کا جشن منانے والوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ نرسمہا راؤ ‘ لعل کرشن اڈوانی اور اٹل بہاری واجپائی کو ’بھارت رتن‘ کے اعزاز سے نوازنے کا اعلان کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملک میں موجود فرقہ پرستوں کو متحد کرتے ہوئے اس کا فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں ملک کے اعلیٰ ترین اعزاز کے حصول کے لئے متنازعہ شخصیات کے انتخاب کی راہ ہموار کردی ہے جبکہ 10 سال کی مدت میں ان کے علاوہ جن شخصیات کا ’بھارت رتن ‘ کے لئے انتخاب عمل میں لایا گیا ہے ان میں ملک میں سبز انقلاب کے بانی زرعی سائنسداں ایم ایس سوامی ناتھن‘ بہار کے سابق چیف منسٹر کرپوری ٹھاکر‘ سابق وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ شامل ہیں۔ ایم ایس سوامی ناتھن زرعی سائنسداں اور شعبہ زراعت میں انقلاب پیدا کرنے والی شخصیت ہیں لیکن ان کا بھارت رتن کے لئے انتخاب بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے ہی کیاگیا ہے اور حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہاہے کہ حکومت نے سماجی انصاف کو یقینی بنانے کے لئے ان شخصیات کا انتخاب کیا ہے۔یہ بات ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کیونکہ ایم ایس سوامی ناتھن کمیٹی نے کسانوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے جو سفارشات کی ہیں ان پر عمل آوری کے بجائے 10 سال میں محض کمیٹی کی سفارشات کا جائزہ لینے کے لئے کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں ۔
سابق چیف منسٹر بہار کرپوری ٹھاکر کو بھارت رتن کے بعد چیف منسٹر بہار نتیش کمار نے دوبارہ این ڈی ایس میں شمولیت اختیار کرلی ‘ اترپردیش میں بی جے پی اتحاد کی تلاش میں بھٹک رہی تھی اور اب راشٹرلوک دل نے چودھری چرن سنگھ کو بھارت رتن اعزاز سے نوازنے کے اعلان کے ساتھ ہی بی جے پی کے خیر مقدم میں مصروف ہوچکی ہے اور آر ایل ڈی قائد جئینت چودھری نے کہا کہ ’’دل جیت لیا‘ ‘ ان دو سیاستدانوں کے ذریعہ بہار اور اترپردیش میں سیاسی جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہونے والی بی جے پی نے جنوبی ہند میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے ایم ایس سوامی ناتھن اور پی وی نرسمہا راؤ کو بھارت رتن کا اعلان کیا ہے ۔ پی وی نرسمہا راؤ کو بھارت رتن کے اعلان کے ساتھ ہی تلنگانہ میں بی جے پی کو کسی قدر جگہ حاصل ہوجائے گی اور تمل ناڈو میں جہاں کافی کوشش کے باوجود بی جے پی کو سیاسی فائدہ حاصل نہیں ہورہا تھا وہاں ایم ایس سوامی ناتھن کے نام کا سہارالیا گیا ہے۔اگر یہی پیمانہ انتخاب ہے توایسی صورت میں پنجاب میں اکالی دل این ڈی اے میں دوبارہ واپسی کے لئے تھوڑا انتظار کرتی تو شائد پنجاب سے بھارت رتن اور شیوسینا میں پھوٹ نہ پڑتی تو مہاراشٹراسے بالا ٹھاکرے کو ’بھارت رتن‘ کا اعلیٰ ترین اعزاز دیتے ہوئے ان سیاسی جماعتوں کو بھی این ڈی اے میں شامل کرلیا جاتا۔