اب ’’پی کے‘‘ کہاں جائیں گے ؟

   

کنگشک ناگ
پرشانت کشور کے آج ملک بھر میں چرچے ہیں۔ انہیں ملک میں انتخابی حکمت ساز کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ پرشانت کشور جنہیں ’’پی کے‘‘ کے طور پر جانا جاتا ہے،2010ء کے دوران ہندوستانی سیاسی ماحول میں نظر آئے۔ وہ ایک بہاری اور ذات کے لحاظ سے بھومیہاری ہیں۔ گاندھی نگر میں آنے سے قبل مغربی آفریقہ میں اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی کیلئے خدمات انجام دے رہے تھے۔ گاندھی نگر میں انہوں نے اس وقت کے چیف منسٹر نریندر مودی سے ملاقات کی اور انہیں متاثر کیا کہ انتخابات کیسے کامیابی سے لڑے جاتے ہیں۔ مودی، پرشانت کشور سے مل کر کافی متاثر ہوئے اور شاید انہیں محسوس ہوا کہ یہ نوجوان ان کیلئے کافی کارآمد ہوسکتا ہے چنانچہ مودی نے پرشانت کشور سے ان کیلئے کام کرنے کیلئے کہا۔ مودی نے صرف یہی نہیں کہا بلکہ ’’پی کے‘‘ کو ایک دفتر بھی فراہم کردیا جو چیف منسٹر کے رہائشی کامپلیکس میں واقع تھا۔ باالفاظ دیگر مودی نے انہیں اپنی پارٹی اور دیگر ایجنسیوں سے بالکل الگ اور دور رکھا۔ پی کے ایک کارآمد لیکن کافی رائے رکھنے والا شخص ہے اور ان کی ہمیشہ یہی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے ان کی رائے کا احترام کرے اور اسے تسلیم کرے چنانچہ پرشانت کشور نے انتخابی منظر کا کافی گہرائی سے جائزہ لیا، ساتھ ہی مختلف ذاتوں، ذیلی ذاتوں کے امتزاج کا زمینی حقائق اور تمام میلوں کا بڑی مہارت سے جائزہ لیا۔ پرشانت کشور کے بارے میں جو کہانیاں منظر عام پر آئیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ پی کے کچھ عرصہ میں ہی امیت شاہ کے ساتھ تنازعات میں پڑگئے۔ امیت شاہ اُن دِنوں ریاست گجرات کے وزیر داخلہ تھے۔ کسی کیلئے کام نہیں کیا لیکن مودی کے ساتھ ان کے تجربہ نے انہیں ایک اچھے مقام پر لاکھڑا کیا۔ سیاسی جماعتیں اب بی جے پی کے محاصرہ میں ہیں اور ان کا احساس ہے کہ مودی کا سابق معاون انہیں موثر مشورہ دے سکتے ہیں، تاہم بہت سے لوگوں کو اس مشورہ کے بارے میں تھوڑا سا شبہ ہے کہ وہ ملے گا یا نہیں، بعض ایسے بھی ہیںجو پورے اعتماد کے ساتھ کہتے ہیں کہ پی کے ہنوز مودی کیمپ میں ہوسکتے ہیں، اس لئے ان سے مشورہ لینا عقلمندی نہیں ہوسکتی۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی احساس ہے کہ پی کے مفید معلومات اپنے سابق موکل کو دے سکتا ہے۔
پرشانت کشور کا ممتا بنرجی کو مشورہ
تاہم ممتا بنرجی نے گزشتہ سال کے اسمبلی انتخابات میں پرشانت کشور سے نہ صرف مشورہ لیا بلکہ ان مشوروں پر عمل کرتے ہوئے کامیابی بھی حاصل کی۔ اس وقت ٹی ایم سی نے بی جے پی کی بڑھتی طاقت کے پیش نظر اسے پوری طرح جکڑ لیا تھا جبکہ بی جے پی ریاست مغربی بنگال میں اقتدار حاصل کرنے کی جان توڑ کوشش کررہی تھی کیونکہ بی جے پی نے 2019ء کے عام انتخابات میں مغربی بنگال کی پارلیمانی نشستوں پر شاندار مظاہرہ کیا تھا جس سے اس کے حوصلے بلند ہوگئے تھے ۔ اسے یقین ہوچکا تھا کہ مغربی بنگال میں بھی وہ ٹی ایم سی کے خلاف کامیابی حاصل کرتے ہوئے اقتدار پر فائز ہوجائے گی۔ ان حالات میں ٹی ایم سی کسی بھی طرح بی جے پی کو نظرانداز نہیں کرسکتی تھی اور کسی قسم کا جوکھم بھی نہیں لے سکتی تھی لیکن بی جے پی وہاں بری طرح ناکام رہی۔ ریاست مغربی بنگال میں بی جے پی کو لاکھ کوششوں کے باوجود ٹی ایم سی کے مقابلے شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس کامیابی کے کریڈ کا کچھ حصہ ’’پی کے‘‘ کو بھی جانا چاہئے حالانکہ مابعد انتخابات ممتا بنرجی نے یہ تاثر دیا کہ پی کے کو ہر چند میں غیرضروری طور پر جھانکنے کی یا مداخلت کرنے کی عادت ہے۔ مثال کے طور پر پرشانت کشور نے ممتا بنرجی کو ان کے سابق وزیر فینانس امیت مترا کو ٹکٹ نہ دینے کا مشورہ دیا تھا چنانچہ انہوں نے پرشانت کشور کے مشورہ کے مطابق کام کیا لیکن انتخابات کے بعد امیت مترا کو دوبارہ اپنا وزیر فینانس مقرر کیا۔ پی کے نے ممتا بنرجی کو گوا جیسی ریاست کے اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے کا مشورہ دیا اور وہ مشورہ غلط ثابت ہوا کیونکہ ٹی ایم سی کو گوا اسمبلی انتخابات میں ایک نشست پر بھی کامیابی نہ مل پائی۔
کانگریس مختلف پارٹی لیڈروں کے ساتھ ٹیم بنارہی ہے
کانگریس مفادات ِ حاصلہ اور ایسے درجنوں قائدین کے ساتھ ٹیم بنا رہی ہے جنہیں پارٹی میں کسی بھی قسم کی صحت مندانہ تبدیلی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان حالات میں پرشانت کشور ایسے ایجنٹ لگتے ہیں جو کانگریس میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے خواہاں ہیں لیکن ان کے منصوبے کانگریس قائدین کیلئے ناقابل قبول ہیں، اس طرح پی کے کانگریس میں شمولیت کی بھرپور کوششوں کے باوجود ناکام رہے اور اس ضمن میں جو وجوہات دی گئیں، وہ مختلف تھیں۔ آپ کو بتادیں کہ آندھرا پردیش میں حصول اقتدار کیلئے پی کے نے جگن موہن ریڈی کی مدد کی اور وہاں جگن اور پی کے کا اتحاد ہے اور حالیہ عرصہ کے دوران پی کے نے تلنگانہ میں کے سی آر کی تلنگانہ راشٹریہ سمیتی (ٹی آر ایس) کے ساتھ کام کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ اب تلنگانہ میں ٹی آر ایس اور کانگریس ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ ایسے میں پی کے دونوں فریقوں کو کیسے مقررہ دے سکتے ہیں؟ یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔ اگرچہ پی کے نے اس سلسلے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس مختلف گیم پلان یا من صوبہ ہے۔ وہ یقینا یہ سوچتے ہیں کہ صرف کانگریس جیسی پارٹی ہی (جو قومی سطح پر اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے) بی جے پی کا مقابلہ کرسکتی ہے اور یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب پہلے کانگریس مضبوط ہو۔
اگلا قدم کیا ہے
ایسا کرنے کا ایک طریقہ کانگریس، ٹی آر ایس، وائی ایس آر اور دیگر کئی علاقائی جماعتوں کو متحد کرتا ہے۔ یہ ایک بڑا اتحاد یا محاذ ہوگا جو بی جے پی کو چیلنج کرسکتا ہے۔ بی جے پی کو چت کرنے کا کاغذ پر یہ بہترین آئیڈیا لگتا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کا اتحاد ہوسکتا ہے؟ دوسرے طرف اس قسم کے اتحاد کو عملی شکل اختیار کرنے سے روکنے بی جے پی کے اقدامات کے علاوہ چھوٹی علاقائی جماعتوں کی قیادت ایسے قائدین کررہے ہیں جن میں انا پرستی پائی جاتی ہے۔ اس لئے وہ آسانی سے اس اتحاد میں شامل نہیں ہوں گے اور بہ آسانی اپنی آزادی ترک نہیں کریں گے۔