اترپردیش انتخابات میں بی جے پی کو واضح برتری

   

راج دیپ سردیسائی
ہنومان گڑھی مندر سے اترپردیش کے ایودھیا میں رام جنم بھومی کے مقام تک جانے والے راستہ کی ایک تنگ گلی میں دوکاندار مایوس ہیں۔ ان کی دوکانوں کو مندر کی توسیع اور تزئین کے موقع پر منہدم کردیا جائیگا ۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ ووٹ کس کو دیں گے ۔ جواب ملا کہ ’’ ووٹ تو بی جے پی کو پڑیگا ۔ بڑے مودی جی اور بغیر یوگی جی رام مندر نہیں بن سکتا ۔ آستھا بھی اہم ہے ‘‘ ۔
کانپور کے قریب ایک گاوں میں کرمی برادری سے تعلق رکھنے والے کسانوں کی جانب سے ڈیزل قیمتوں میں اضافہ اور آوارہ مویشیوں کے مسئلہ کی شکایات کی جا رہی ہیں لیکن اشارہ بھی دیا جا رہا ہے کہ ان کا ووٹ بی جے پی کے ساتھ ہے ۔ انہوں نے وجہ بتائی کہ ’’ یوگی جی کی حکومت کئی مہینوں سے ہمیں مفت راشن دے رہی ہے ‘‘ ۔ زیادہ حیرت نہیں ہوئی کہ راشن کے پیاکٹس پر چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ اور وزیر اعظم نریندر مودی کی تصاویر موجود ہیں۔
اب شہری علاقہ لکھنو آتے ہیں جہاںشہر کے نوجوان ایک فوڈ اسٹریٹ میں وقت گذاری کر رہے ہیں۔ ان میں اکثریت کو روزگارا ور ملازمتیں نہ ملنے سے پریشانی ہے ۔ ایسے میں یہ لوگ کس کو ووٹ دیں گے ؟ ۔ اس پر ایک نوجوان نے کہا کہ میں یوگی حکومت کو ایک اور موقع دینا چاہتا ہوں۔ کم از کم خواتین کی سکیوریٹی اب بہتر ہوئی ہے اور میں بھی رات 7 بجے کے بعد گھوم پھر سکتی ہوں ۔ یہ سافٹ ویر انجینئر تھی ۔ وسطی اترپردیش کے اودھ علاقہ سے گذرتے ہوئے یہ احساس ہو رہا تھا کہ ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی اور سیاسی اعتبار سے سب سے با اثر ریاست اب بھی تضادات کا ایک مجموعہ ہے ۔
آج کا دور 1990 کی دہائی والا مشکلات کا دور نہیں ہے جہاں ذات پات اور برادری کی شناخت پر جنگیں ہوا کرتی تھیں۔ انتہائی شدت کے ساتھ یہ مسائل رہے تھے ۔ یہاں اب کورونا وباء کے دور کی مشکلات کی وجہ سے ناراضگی ہے ۔ تاہم یہ ناراضگی برہمی میں تبدیل نہیں ہوئی ہے ۔ سوائے مغربی اترپردیش کے جو کسانوں کے احتجاج کا مرکز تھا ‘ اس علاقہ میں سیاسی حالات ڈرامائی انداز میں بدل گئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اب یہاں صورتحال مستحکم ہوگئی ہے ۔
ایسے میں ایک مایوس ووٹر کا تضاد کیا بیان کرسکتا ہے ؟ ۔ تاہم ایک واضح انتخابی ترجیح نظر آتی ہے ۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہاں کوئی متبادل نظر نہیں آتا ۔ مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی ایسا لگتا ہے کہ بکھر کر رہ گئی ہے جبکہ اس نے صرف 15 برس قبل ریاست میں اکثریت حاصل کی تھی ۔ پرینکا گاندھی واڈرا کی قیادت میں کانگریس نے خود کو راکھ سے اوپر اٹھانے کی کوشش کی ہے لیکن کئی دہوں کی تنظیمی خامیوں کو چند مہینوں کی کوشش سے دور نہیں کیا جاسکتا ۔ ایسے میں اب اکھیلیش یادو ہی ایک امکان نظر آتے ہیں۔ انہوں نے سماجوادی پارٹی کو بحال کرنے جو اتحاد چھوٹی جماعتوں کے ساتھ کئے ہیں وہ در اصل مسلم ۔ یادو ووٹ بینک کے حدود کو ظاہر کرتا ہے ۔ تاہم انہیں اب بھی یادو باہو بلی غلبہ کی شناخت کے ساتھ ہی کام کرنا پڑیگا ۔
دوسری بات یہ کہ بی جے پی نے گذشتہ سات برسوں میں سوشل انجینئرنگ پر بہت کام کیا ہے ۔ اس میں غیر یادو دیگر پسماندہ طبقات ( او بی سی ) پارٹی کا انجن بن گئے ہیں۔ اس کے نتیجہ میںقیادت کی سطح پر اعلی ذات وغیرہ سے کچھ مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ پارٹی کا اپنے مخالفین سے کافی وسیع سماجی ڈھانچہ ہے ۔
تیسری بات یہ کہ مودی ۔یوگی کے ڈبل انجن کی بہبودی اسکیمات نے ایک موافق غریب امیج تیار کیا ہے جس کے نتیجہ میں شائد پارٹی بڑھتی مہنگائی اور اس کے ارکان اسمبلی کے خلاف ناراضگی پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائے گی ۔ مثال کے طور پر پی ایم ۔ کسان کا فبروری 2019 میں آغاز کیا گیا جس کے تحت کسانوں کو فی ایکڑ 6 ہزار روپئے سالانہ تین اقساط میںمدد مل رہی ہے ۔ اترپردیش میں اس اسکیم کے سب سے زیادہ استفادہ کنندگان ہیں۔ رقمی منتقلی اور مفت راشن کے استفادہ کنندگان کی کثیر تعداد بی جے پی کے انتخابی امکانات کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔
چوتھی بات یہ کہ میڈیا پر حکومت کے بیوروکریٹک مشین سے بہت زیادہ کنٹرول کیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں کوئی منفی خبر پرائم ٹائم بحث کا حصہ نہیں بن سکتی ۔ چاہے یہ 2021 کی کورونا کی دوسری لہر کے دوران گنگا میں بہنے والی نعشیں ہوں یا وزارتی کرپشن ہو ۔ چاہے یہ ہاتھرس عصمت ریزی و قتل کا واقعہ ہو یا لکھیم پور کھیری میں کسانوں کو روندنے کی بات ہو ۔ وقتی طور پر کوئی صحافی کوئی انکشاف کرتا بھی ہے تو اس سے انتہائی سختی سے نمٹا جاتا ہے ۔ لا اینڈ آرڈر میںسختی کرنے چیف منسٹر کے سخت گیر موقف کو بھی مخالف مسلم نظریہ سے دیکھا جا رہا ہے ۔ یوگی کی بلڈوزر سیاست کا نشانہ مسلم گینگسٹرس کو سمجھا جا رہا ہے ۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ اترپردیش کی روایتی ذات پات کی خطوط یا مقامی مخالف حکومت لہر کوئی عنصر نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کو 2017 کے مقابلہ میں کم نشستیں حاصل ہونگی ۔ مودی ۔ یوگی کی جوڑی کی بدولت بی جے پی اکثریت سے محروم نہیں ہوگی ۔ خواتین بہت اہمیت کی حامل ہیں اور ان کی تائید ذات پات کی سوچ سے آگے ہوسکتی ہے ۔ یہ قطعیت سے نہیں کہا جاسکتا کہ بی جے پی کا UP-Yogi نعرہ کب تک کار آمد رہے گا ۔ تاہم فی الحال ایسا لگتا ہے کہ ہندی پٹی کی اس ریاست میں ہندو کا نعرہ چلتا رہے گا ۔ پوسٹ اسکرپٹ : لکھنو کے اقتدار کے گلیاروں میں یہ قیاس ارائیاں ہیں کہ آیا بی جے پی قیادت ایک بڑی کامیابی کی بہ نسبت کم طاقت والی کامیابی کو ترجیح دے گی ؟ ۔ کم طاقت والے یوگی بی جے پی کے مروجہ اقتدار کے ڈھانچہ میں کچھ مخصوص سیاسی مفادات کیلئے زیادہ سازگار ہونگے اگر انتخابی سیاست پر کنٹرول کرنا آسان رہے ۔