اترپردیش انتخابات میں مسلم اکثریتی نشستوں کا فیصلہ کن موقف

,

   

Ferty9 Clinic

کم از کم 20 فیصد مسلم آبادی والے اضلاع پر سیاسی جماعتوں کی نظریں ،بی جے پی کا ان علاقوں میں اقتدار

لکھنو۔ اتر پردیش کے مسلم اکثریتی اضلاع کی اسمبلی نشستیں 2022 کے اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے میں اہم کردار ادا کریں گی۔ ان میں سے زیادہ نشستیں جیتنے والی پارٹی اقتدار کی کلید اپنے پاس رکھے گی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ کم ازکم 20 فیصد مسلم آبادی والے اضلاع اور اسمبلی سیٹوں کو مسلم اکثریتی سمجھا جاتا ہے۔ ان سیٹوں پر کامیابی اور شکست میں مسلم ووٹوں کا اہم کردار ہے۔ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی نے ان اضلاع میں زیادہ تر سیٹیں جیتی تھیں۔ پھر ان اضلاع میں حاصل کردہ سیٹوں نے اہم کردار ادا کیا اور اس سے پہلے 2012 میں سماج وادی پارٹی نے ان اضلاع کی زیادہ تر سیٹوں پر قبضہ کیا تھا لہذا ہر سیاسی جماعت ان اضلاع کے لیے امیدواروں کے انتخاب سے لے کر انتخابی مہم تک ایک خاص حکمت عملی بناتی ہے۔ مغربی یوپی کے اضلاع میں مرادآباد اور سنبھل میں 47.12 فیصد، بجنور میں 43.03، سہارنپور میں 41.95، مظفر نگر اور شاملی میں 41.30 اور امروہہ میں 40.78 فیصد مسلمان ہیں۔ ان کے علاوہ پانچ اضلاع میں مسلمانوں کی آبادی 30 سے 40 فیصد کے درمیان ہے اور 12 اضلاع میں مسلمانوں کی آبادی 20 سے 30 فیصد کے درمیان ہے لیکن رائے دہی کے پہلے مرحلے میں کیرانہ، ہاپوڈ، مظفر نگر، علی گڑھ، بلند شرج اور غازی آباد مسلم اکثریتی نشستیں ہونے والی ہیں۔2017 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے ان 29 مسلم اکثریتی اضلاع کے 163 اسمبلی سیٹوں میں سے 137 پر کامیابی حاصل کی تھی۔ دلتوں کے لیے محفوظ 31 سیٹوں میں سے بی جے پی نے 29 پر کامیابی حاصل کی، سماج وادی پارٹی ان میں سے صرف 21 سیٹیں جیت سکی۔ جبکہ کانگریس کو صرف دو سیٹیں ملیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں، ایس پی۔کانگریس اتحاد مسلم اکثریتی اضلاع میں صرف 23 سیٹوں پر سمٹ کر رہ گیا تھا۔ انتخابات کے پہلے مرحلے میں 58 اسمبلی سیٹوں پر رائے دہی ہوگی۔ یہ تمام سیٹیں یوپی کے مغربی اضلاع کی ہیں، جو کسانوں کی تحریک اور پولرائزیشن دونوں کی تجربہ گاہیں رہی ہیں، اس لیے ان کے نتائج سیاسی جماعتوں کے ساتھ مسائل کی بھی جانچ کریں گے۔ حکمراں بی جے پی جس نے یہاں 90فیصد سے زیادہ سیٹیں جیتی ہیں، اس کے پاس اس بار اپنا مضبوط قلعہ بچانے کا پہاڑ جیسا چیلنج ہے۔ بی جے پی ایک بار پھر مغربی اتر پردیش میں کیرانہ منتقلی کو بڑا سیاسی مسئلہ بنانے جا رہی ہے۔ گھر گھر مہم میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اس مہم کو مزید تقویت دی۔ بی جے پی نے سابق ایم پی حکم سنگھ کی بیٹی مریگانکا سنگھ کو میدان میں اتارا ہے جبکہ سماج وادی پارٹی کی جانب سے ناہید حسن انتخاب لڑیں گی۔بے گھر خاندانوں سے ملاقات کے بعد امیت شاہ نے کہا میں جنوری 2014 کے بعد پہلی بار کیرانہ آیا ہوں۔ 2014 کے بعد پی ایم مودی نے یوپی کی ترقی کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی۔ 2017 میں یہاں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ وزیر اعلیٰ بنے اور ترقی کو مزید تقویت دی۔2013 میں مظفر نگر فسادات کے بعد فرقہ وارانہ تقسیم نے یہاں کا سیاسی منظرنامہ بدل دیا۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات ہوں یا 2017 کے اسمبلی انتخابات، پولرائزیشن نے ہی نتائج کی سمت کا تعین کیا لیکن اس بار معاملات بدلے ہیں اور کھلاڑی بھی تبدیل ہوچکے ہیں۔