اجمیر : مسجد ڈھائی دن کا جھونپڑا پر بھی مندر ہونے کا دعویٰ

   

اجمیر : ملک کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک مسجد ڈھائی دن کا جھونپڑا کے نام پر بھی تنازعہ شروع کردیا گیا ۔اس بار تنازعہ نماز کو لے کر ہے۔ گذشتہ چند دنوں سے، ہندو اور جین قائدین نے یہاں نماز پڑھنے کی مخالفت کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسجد کے آرکٹکچر میں ہندوستانی علامتیں ہیں جن کی بنیاد پر اس کے ہندو۔جین مندر ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ اصل میں یہ ان مسجدوں میں سے ایک ہے جو شمالی ہند میں سب سے پہلے تعمیر ہوئی تھیں۔ تب سنگ تراش اور کاریگر ہندوستانی تھے جو ہندوستانی علامتیں بناتے تھے جیسے پیڑ اور پتیاں وغیرہ۔ بعد میں ایرانی کاریگر آنے لگے تھے جنہوں نے تاج محل، مقبرہ ہمایوں، دہلی کی جامع مسجد کی تعمیر کی تھی۔ ہندوستانی علامتوں کو بنیاد بناکر مسجد ڈھائی دن کا جھونپڑہ کو ہندو مندر قرار دیا جارہا ہے۔ یہاں نماز جاری ہے اگرچہ یہ اے ایس آئی کے ماتحت بھی ہے۔دراصل سال کے اوائل میں جب ایک جین بھکشو ڈھائی دن جھونپڑی دیکھنے جا رہا تھا۔ تب اسے روکاگیا ۔ اس کے بعد تنازعہ بڑھ گیا، کیونکہ یہ ایک سیاحتی مقام ہے، جس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری محکمہ آثار قدیمہ کی ہے۔ اس واقعہ کے بعد اجمیر سمیت ملک میں جین برادری نے انتظامیہ میں اعتراض درج کرایا تھا۔ دراصل مسجد ڈھائی دن کا جھونپڑا قطب الدین ایبک نے افغان کمانڈر شہاب الدین محمد غوری کے حکم پر 1192 عیسوی میں بنوائی تھی ۔ اب دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس جگہ پر سنسکرت کا بہت بڑا سکول اور مندر تھا ۔اس مسجد میں کل 70 ستون ہیں۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ ان مندروں کے ہیں جنہیں گرا دیا گیا تھا لیکن ان ستونوں کو جوں کا توں رہنے دیا گیا تھا۔ ان ستونوں کی اونچائی تقریباً 25 فٹ ہے اور ہر ستون پر خوبصورت نقش و نگار ہیں۔