رویش کمار
دہلی میں موجود کھلیہر اسکالرس کا تاثر ہے کہ ترمیم شدہ قانون شہریت کی تائید اور مخالفت میں ریلیاں اب بوریت کا احساس دلانے لگی ہیں۔ اب ان پر کچھ ٹوئٹ کرنا دل نہیں چاہتا، اس لئے وہ لکھنے میں مصروف ہوگئے ہیں کہ ان ریلیوں اور مظاہروں کا کیا ہونے والا ہے۔ یہ کب ختم ہوں گے۔ احتجاج کرنے والوں سے ایسے سوالات پوچھے جارہے ہیں لیکن کیوں تائید و حمایت میں ریلیاں منفرد ہیں۔ بی جے پی نے اس کی وضاحت کیلئے ملک بھر میں 250 پریس کانفرنس اور 1,000 جلسے منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مقامی اور قومی قائدین حصہ لیں گے اور گھر گھر جاکر اس قانون کی وضاحت کریں گے۔ جب اس قانون کو 130 کروڑ ہندوستانیوں کی تائید ملی، تو پھر کیوں بی جے پی کو اس قدر ریلیاں منعقد کرنا چاہئے؟
اب دیکھنا ہے کہ 1,000 سبھاؤں میں سے آسام اور شمال مشرق میں کتنے منعقد کئے جاتے ہیں۔ اس قانون کی مخالفت کا انداز مختلف ہے۔ آسام میں وزیراعظم کو اپنا دورہ دو مرتبہ منسوخ کرنا پڑا۔ خود وزیر داخلہ امیت شاہ کئی ریلیاں منعقد کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ مرکزی وزراء کو کشمیر بھیجا گیا ہے۔ شہ سرخی میں کشمیر لکھا ہوتا ہے لیکن ٹور پروگرام کا محض 13 فیصد حصہ سرینگر میں ہوتا ہے۔ 87 فیصد ٹور جموں خطہ میں ہوگا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مرکزی وزراء وادی میںسرینگر کے علاوہ دیگر اضلاع کو نہیں جائیں گے۔ وزیراعظم ابھی سرینگر نہیں جاپائے ہیں، حالانکہ 19 ستمبر کو ناسک میں انھوں نے کہا تھا کہ کشمیر کو جنت بنانا ہوگا اور ہر کشمیری کو قبول کرنا ہوگا۔ ان کے زخموں پر مرہم لگانا پڑے گا۔ خود وزیراعظم ابھی تک کشمیر کو گلے نہیں لگا پائے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہندوستان کی جمہوریت ان دو قوانین کی حمایت اور مخالفت میں جاگ گئی ہے۔ یہ کہنا زیادہ مناسب لگتا ہے کہ حکومت سو گئی ہے۔ وہ لوگوں کی بات سن نہیں پا رہی ہے۔
ٹرین میں ، بسوں میں پوسٹرس لگاتے ہوئے، آٹورکشاؤں پر پوسٹرس چسپاں کرتے ہوئے، دیہات اور شہروں کی دیواروں پر بھی پوسٹرس لگاتے ہوئے احتجاجی نوجوان بھلے ہی میڈیا کے کیمروں سے اوجھل ہیں، لیکن وہ بذات خود کیمرے بن چکے ہیں۔ یہ تمام نوجوان اترپردیش کے ہیں۔ جب حکومت نے ان نوجوانوں کے جاب سے متعلق امتحانات کا مسئلہ نہیں سنا، وہ کئی دنوں تک ٹوئٹر کے ذریعے بھی احتجاج درج کراتے رہے، لیکن کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔ کیا ایسے مظاہروں کی ہماری جمہوریت کے نئے فہم میں کوئی جگہ ہے؟ گزشتہ سال 6 جنوری کو یو پی میں 69,000 ٹیچروں کے تقرر کا ٹسٹ تھا۔ ایک سال ہوگیا، ابھی تک کوئی تقرر نہیں ہوا ہے۔ یہ معاملہ عدالت میں زیردوراں ہے اور اسٹوڈنٹس کا الزام ہے کہ حکومت مناسب ڈھنگ سے تعاون نہیں کررہی ہے، اس لئے معاملہ لیت و لعل میں پڑا ہے۔ اس امتحان کی وجہ سے زائد از 4 لاکھ اسٹوڈنٹس متاثر ہیں۔ اس میں ہندو ہیں، مسلم اور دیگر طبقات بھی ہیں۔ ان کا مسئلہ کوئی لیڈر نہیں اٹھا رہا ہے۔ شاید ایسے مسائل سے لیڈر نہیں بن سکتے!
احتجاجوں و مظاہروں سے عوام نہیں تھکتے۔ اسکالرس تھک جاتے ہیں۔ ورنہ شاہین باغ کا احتجاج وہیں تک محدود رہتا۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج تو دہلی کے ہی خوریجی میں بھی ہورہا ہے۔ پٹنہ، کانپور، الہ آباد (پریاگ راج)، لکھنو، ارریا (بہار)، کوٹا (راجستھان)، کولکاتا وغیرہ میں بھی شاہین باغ کا منظر اُبھر رہا ہے۔ اگر ان مظاہروں کا کچھ اثر نہ ہوتا تو بی جے پی 1,000 ریلیاں اور جلسے منعقد کرتے ہوئے تین کروڑ عوام تک پہنچنے کا فیصلہ نہ کرتی۔ بی جے پی کو مسڈ کالس کی مہم کیوں منعقد کرنا پڑتا؟ دہلی کے اسکالرس کو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ کئی ہفتوں تک غالب کے محلہ میں بھی مظاہرہ ہوا۔ شاید ہم ان مظاہروں کو سمجھنا نہیں چاہ رہے ہیں، لیکن مظاہرین جلدی میں نہیں ہیں۔ غالب کے محلہ بلیمارن میں ہر شام 7 بجے سے پندرہ منٹ کیلئے دکاندار بیانرس، پوسٹرس لے کر نئے قانون شہریت کے خلاف بطور احتجاج اپنی دکانوں کے باہر ٹھہرتے ہیں۔ ان کا احتجاج مختلف نوعیت کا ہے۔ نہ انھیں شاپ بند کرنا ہے، نہ سڑک پر ٹریفک جام ہوتی ہے۔ یہ 200 شو شاپرس ہیں جو کئی ہفتوں سے اس طرح احتجاج کررہے ہیں۔
چار سال قبل حیدرآباد یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ روہت ویمولا نے خودکشی کرلی تھی۔ 26 سالہ پی ایچ ڈی اسکالر کو معطل کیا گیا تھا۔ ایسا الزام تھا کہ روہت اور 4 اسٹوڈنٹس نے ایک اے بی وی پی اسٹوڈنٹ کو قتل کیا تھا۔ اس واقعہ کے تعلق سے شدید تنازع پیدا ہوا۔ پارلیمنٹ میں معاملہ اٹھایاگیا۔ چار سال بعد بھی روہت ویمولا کو احتجاجی لوگ اپنے مظاہرے سے قبل اور بعد یاد کرتے ہیں۔ آئی آئی ٹی بمبے میں دو ہفتوں سے دستور کے دیباچہ کا متن پڑھا جارہا ہے۔ ہر شام 6 بجے اسٹوڈنٹس اور ٹیچرز شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ ان کو کپڑوں سے نہیں پہچانا جاسکتا ہے۔ وہ اپنے نعروں میں کہہ رہے ہیں کہ ان کے احتجاج میں کپڑوں اور مذہب کا کوئی دخل نہیں ہے۔ آئی آئی ٹی بمبے میں جوش و خروش شاہین باغ جیسا ہے۔ یہاں 16 تا 26 جنوری جمہوریت اور دستور پر لیکچر سیریز منعقد کی جارہی ہے۔ روہت ۔ سمرتی دیوس 17 جنوری کو منایا گیا۔
کولکاتا میں احتجاج بھی بہت بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔ پارک سرکس سے جو تصویریں آرہی ہیں، ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ماہ بعد بھی ردھم برقرار ہے۔ مہاراشٹرا میں بھی ریلیاں نکل رہی ہیں۔ کیرالا کے بعد پنجاب قانون ساز اسمبلی نے بھی قراردار منظور کرتے ہوئے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کی ہے۔ پنجاب بھی کیرالا کی طرح نئے قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کررہا ہے۔ پنجاب حکومت نے کہا ہے کہ نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کا عمل پرانے قواعد کے مطابق ہوگا۔ نئے قاعدے لاگو نہیں کئے جائیں گے۔ اکالی دل نے پنجاب اسمبلی میں اس تجویز کے خلاف ووٹ دیا۔ اکالی دل نے بلاشبہ کہا کہ مسلمانوں کو سی اے اے میں شامل کیا جانا چاہئے۔
گزشتہ ہفتے دہلی میں این پی آر پر ایک میٹنگ منعقد کی گئی۔ تمام ریاستوں کو دعوت دی گئی۔ بنگال نے حصہ نہیں لیا۔ حال ہی میں ہم نے بتایا تھا کہ پیلی بھیت (یو پی) میں پناہ گزینوں کی فہرست بنانے کا کام کیا گیا ہے، جس کے قواعد منظرعام پر نہیں لائے گئے ہیں۔ مرکز نے اس طرح کے کوئی قواعد سے ریاستوں کو مطلع نہیں کیا ہے۔ کمال خان نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ایسا دعویٰ کرنا ادھورا ہے کہ ہندو صرف بنگلہ دیش اور پاکستان سے مذہبی ظلم و ستم کی وجہ سے آئے اور مسلمان صرف روزگار کی تلاش میں آئے۔ کمال نے ایسے کئی ہندوؤں سے بات کی، جن کا کہنا ہے کہ وہ ہندوستان کو مختلف وجوہات کی بناء آئے۔
[email protected]