احتجاج کو کمزور کرنے پر سنگین حالات کا اندیشہ

   

سی اے اے کے تحت مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے کی سازش غیر دستوری،محبوب نگر میںسمینار، پروفیسر ایم سریدھر اور دیگر کا خطاب

محبوب نگر،/8 مارچ، ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) ہمارے ملک کو عالمی سطح پر منفرد مقام حاصل ہے اور علحدہ شناخت ہے کہ یہاں پر مختلف مذاہب ، زبانوں اور تہذیبوں کے حامل افراد کو مساویانہ اور آزادانہ زندگی گذارنے کے مواقع حاصل ہیں۔ لیکن گزشتہ چند مہینوں میں مرکزی حکومت کی جانب سے کی گئی قانون سازیوں نے ملک کی انفرادیت کو عالمی سطح پر مشتبہ کردیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ایم سریدھر سابق کمشنر سنٹرل انفارمیشن رائٹس کمیشن نے ہفتہ کے دن مستقر محبوب نگر کے علیس کنونشن میں ’’ جمہوریت کی اہمیت ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سمینار کو مخاطب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ صرف 6 مذاہب والوں کو شہریت اور وہ بھی افغانستان، پاکستان، بنگلہ دیش سے آئے لوگوں کو دینا انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ اگر کوئی خدا کا ہی منکر ہے تو وہ کس مذہب کے دائرے میں ہے اور جو سارے خداؤں کو مانتا ہے وہ کس مذہب کے دائرے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک سروے کے مطابق سری لنکا کے 2 کروڑ لوگ یہاں موجود ہیں ، انہوں نے مزید کہا کہ صرف اور صرف33450 افراد جو بیرونی ہیں یہاں غیر مجاز مقیم رہنے کی اطلاعات ہیں۔ لیکن ان گنے چنے دراندازوں کیلئے ملک کے حقیقی شہریوں کی زندگیوں کو اجیرن کردیا جارہا ہے۔ اور سی اے اے کے تحت مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے کی جو بات ہے وہ غیر قانونی و غیر دستوری اور غیر جمہوری ہے۔ آسام سے تعلق رکھنے والے فوجی افسر ثناء اللہ نے کارگل جنگ میں بہادری کے جوہر دکھائے اور صدر جمہوریہ سے میڈل بھی حاصل کیا۔ بڑے شرم کی بات ہے کہ ملک کے محافظ کو بھی شہریت ثابت کرنے کو کہا گیا اور 21 دن تک ڈٹینشن سنٹر میں ڈال دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آج احتجاج ہمارا حق ہے اور ہم نے اس کو کمزور کرلیا تو سنگین حالات کا سامنا ہوگا۔ 2002-3-4 میں وقفہ وقفہ سے قانون میں تبدیلیاں لائی گئیں اگر ہم اسی وقت احتجاج کرتے تو آج ان سیاہ قوانین کا سامنا نہیں ہوتا۔ پالمورادھیانہ ویدیکا کے اعزازی صدر آچاریہ ہراگوپال نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمام شہریوں کے بنیادی مسائل کا حل حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن حکومت اپنی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر قانون میں مداخلت کے ذریعہ شہریوں کی آزادی صلب کرنے میں لگی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں میں ملک کی معیشت گرفتار ہے جس کا لازمی نتیجہ معاشی خسارہ، بے روزگاری اور ترقی میں زبردست گراوٹ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ آج شہری خوف اور تشویش میں ہیں ۔ انہوں نے برہم ہوتے ہوئے کہا کہ آزادی کی لڑائی میں آر ایس ایس اور بی جے پی کا کوئی رول ہی نہیں ہے۔ لیکن افسوس کہ اقتدار ان کے ہاتھوں میں ہے جو مذہبی منافرت پھیلاتے ہوئے اپنے مفادات کے حصول کیلئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے شاہین باغ کی جہد کار خواتین کو سلام کیا کہ اتنی زبردست مخالفت اور نامساعد حالات کے باوجود اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آج ہم سب کو اس احتجاج کا حصہ بننا ہوگا جب تک مرکزی حکومت اس سیاہ قانون کو واپس نہیں لیتی احتجاج کی شدت جاری رکھیں۔ سمینار کی صدارت راگھواچاری کنوینر پالمورا دھیانہ ویدیکا نے کی۔ سمینار میں پیس مومنٹ تحریک کے نمائندے و دانشوران اور دیگر تنظیموں کے نمائندوں کے علاوہ مولانا عبدالرشید مظاہری، عبدالناصر مظاہری، جلاجم ستیہ نارائن، حنیف احمد، رحمن صوفی، عبید اللہ کوتوال، سندر پال، خلیل و دیگر موجود تھے۔