احمدآباد سلسلہ وار بم دھماکے کیس، 38 ملزمین کو سزائے موت

,

   

۔ 11 ملزمین کو عمر قید، خصوصی عدالت کا فیصلہ

احمد آباد : گجرات کے شہر احمد آباد میں 26 جولائی2008کو ہوئے سلسلہ وار بم دھماکوں کے کیس میں احمدآباد کی ایک خصوصی عدالت نے آج49 ملزمان میں سے38کو سزائے موت اور باقی11کو عمر قید کی سزا سنائی ۔خصوصی جج اے آر پٹیل کی عدالت نے گزشتہ 8 فروری کو اس معاملے کے 79 میں 49 ملزموں کو مجرم قرار دیا تھا اور دیگر 28کو بری کر دیا تھا ۔ایک دیگرملزم کی سماعت کے دوران موت ہو چکی ہے۔ عدالت نے آج اس معاملے میں سزا سماعت کے دوران 49 مجرم ثابت ہونے والوں سے 48 پر 2 لاکھ 85 ہزار روپے (فی کس) کا جرمانہ بھی عائد کیا۔ عدالت نے اس واقعہ کے سبھی 56 ہلاک ہونے والوں کیلئے ایک ایک لاکھ روپیے، 240 زخمیوں میں سے شدید طور پر زخمیوں کیلئے50-50 ہزار اور معمولی زخمیوں کیلئے 25 ، 25 ہزار کے معاوضے کا بھی التزام کیا۔ واضح رہے کہ یہاں سیول ہاسپٹل اور ایل جی ہاسپٹل سمیت 23 پُرہجوم مقامات پر اُس روز شام 6.30 سے 8.45کے درمیان دھماکے ہوئے تھے جس کے نتیجہ میں56 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 240 افراد زخمی ہوئے تھے ۔ اس کے بعد اسی سال 28 سے 31جولائی کے درمیان شہر سورت سے 29 بم برآمد ہوئے جو احمد آباد کے دھماکوں میں استعمال ہوئے تھے۔گجرات پولیس کی تحقیقات کے بعد اس معاملے میں پہلے 11 افراد کو 15اگست 2008 ء کو گرفتار کیا گیا تھا۔ بعدازاں دیگر ملزمان کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ ان دھماکوں کے پیچھے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی، انڈر ورلڈ اور ممنوعہ تنظیم سیمی سے تبدیل ہوئی انڈین مجاہدین کا ہاتھ تھا۔ ان لوگوں نے مبینہ طور پر2002 ء کے گجرات فسادات کا بدلہ لینے کیلئے یہ دھماکے کئے تھے۔

احمدآبادبم دھماکہ کیس
فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا
جائے گا۔مولانا ارشدمدنی
نئی دہلی: گجرات بم دھماکہ مقدمہ کا فیصلہ خصوصی سیشن عدالت کے 49 قصور وار ملزمین میں سے 38 ملزمین کو پھانسی اور 11ملزمین کو تاحیات عمر قید کی سزا سنانے کے فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے کہا کہ نچلی عدالت کا فیصلہ ناقابل یقین ہے۔ اس ردعمل کا اظہار انہوں نے آج ایک ریلیز میں کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند ان سزاؤں کے خلاف ہائی کورٹ سے لیکر سپریم کورٹ تک جائے گی اور ملزمین کو پھانسی کے تختہ سے بچانے کیلئے ملک کے نامور،کریمنل وکلاء کی خدمات حاصل کرے گی اور ان کے مقدمات مضبوطی سے لڑے گی۔
، ہمیں پورایقین ہے کہ اعلیٰ عدالت سے ان نوجوانوں کومکمل انصاف ملے گا، انہوں نے کہا کہ ایسے متعددمعاملے ہیں،جن میں نچلی عدالتوں نے سزائیں دیں مگر جب وہ معاملے اعلیٰ عدالت میں گئے تومکمل انصاف ہوا، اس کی ایک بڑی مثال اکشردھام مندرحملہ کا معاملہ ہے ، جس میں نچلی عدالت نے مفتی عبدالقیوم سمیت تین افرادکو پھانسی اور چارلوگوں کو عمر قید کی سزادی تھی، یہاں تک کہ گجرات ہائی کورٹ نے بھی اس فیصلہ کو برقراررکھاتھا، لیکن جمعیۃعلماء ہند کی قانونی امدادکے نتیجہ میں جب یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں گیا تو یہ سارے لوگ نہ صرف باعزت بری ہوئے بلکہ بے گناہوں کو دہشت گردی کے الزام میں پھانسنے پر عدالت نے گجرات پولس کی سخت سرزنش بھی کی تھی۔مولانا ارشد مدنی نے مزید کہا کہ اکثر بم دھماکہ جیسے سنگین مقدمات میں نچلی عدالت سخت فیصلے دیتی ہے ، لیکن ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے ملزمین کو راحت حاصل ہوتی ہے اور ہمیں امید ہے کہ اس مقدمہ میں بھی ملزمین کو ہائی کورٹ اور اگر ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ سے راحت حاصل ہوگی۔انہوں نے تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل نچلی عدالت اور ہائی کورٹ سے پھانسی کی سزا پانے والے 11/ ملزمین کے مقدمات کی پیروی جمعیۃ علماء ہند نے کی تھی اور ایک بھی ملزم کو پھانسی کی سزا ہونے نہیں دی گئی، ہمیں امید ہے ہم ملزمین کو پھانسی کی سزاؤں سے بچانے میں کامیاب ہونگے ۔انہوں نے کہا کہ اس سے قبل اکشر دھام مندر احمد آباد مقدمہ میں تین افراد کو پھانسی کی سزا نچلی عدالت نے سنائی تھی اور امریکن قونصلیٹ پر حملہ کے مقدمہ میں سات لوگوں کو پھانسی کی سزا ہوئی تھی اور ممبئی کے ایک ملزم کو ممبئی کی نچلی عدالت سے پھانسی کی سزا ہوئی تھی، جمعیۃ علماء ہند کی کامیاب پیروی سے سات ملزمین باعزت بری ہوئے جبکہ دوافراد کی سزاؤں کو سات سالوں میں تبدیل کردیا گیا، اسی طرح دو افراد کی سزاؤں کو پھانسی سے عمر قید میں تبدیل کیا گیا۔ہمیں امید ہے انشاء اللہ اس مقدمہ میں بھی ہمیں اورمقدمات کی طرح کامیابی حاصل ہوگی۔آج خصوصی سیشن عدالت کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے بعد جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار احمداعظمی نے ایک بیان میں کہا کہ نچلی عدالت کا فیصلہ ناقابل یقین ہے ،عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گااور ملزمین کو پھانسی کے تختہ سے بچانے کے لئے ملک کے نامور وکلاء کی خدمات حاصل کی جائے گی۔ملزمین کا تعلق گجرات، یوپی، کرناٹک،کیرالا، مہاراشٹر،مدھیہ پردیش، آندھرا پردیش، راجستھان، بہار اور دہلی سے ہے اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے غیر قانونی طریقے سے دھماکہ خیز مادہ جمع کیا تھا اور پھر بم دھماکہ کیا تھا،جس سے 56 / لوگوں کی موت ہوئی تھی جبکہ 200 سے زائد لوگ زخمی ہوئے تھے ۔