اختراع ، سیکولرازم کی راہ اور ترقی کی منزل

   

کجریوال مثالی، کے سی آر کی بے حالی اور اویسی کی خام خیالی

عرفان جابری
کسی زبان کا مقبول ہونا سماج میں اس کے استعمال پر منحصر ہے۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ جو لوگ مادری زبان پر دسترس رکھتے ہیں، وہ دوسری زبانوں میں بھی حسبِ کوشش گرفت حاصل کرسکتے ہیں۔ بدلتے دَور نے مجھے اس تحریر کا عنوان انگریزی میں پیش کرنے پر مجبور کیا، جس کا ترجمہ و مفہوم ’’اختراع ؍ جدت کا بہترین نمونہ‘‘ ہوسکتا ہے۔ یہ کالم چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال کی نئی میعاد شروع ہوتے ہی عام آدمی کے مفاد میں اُن کے زبردست اختراعی ؍ جدت پسند عزائم کے اعلان کے بارے میں ہے۔ کجریوال کی بالخصوص حالیہ ایک دیڑھ برس کی حکمرانی کے تناظر میں ملک کے بعض دیگر چیف منسٹروں بشمول کے سی آر، آدتیہ ناتھ کی قیادت میں حکومتوں کے احوال کا مختصر جائزہ لینے کی کوشش بھی کررہا ہوں۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ تین چار دہوں سے اہل اُردو اپنی زبان سے ازخود دور ہورہے ہیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اُن گھرانوں میں جہاں پیڑیوں سے مکینوں کی مادری زبان اردو ہے، وہاں کی نئی نسل بلکہ اُس سے ٹھیک پہلے والے ادھیڑ عمر کے لوگ بھی اردو پڑھنے لکھنے سے نابلد ہیں۔ روزنامہ ’سیاست‘ حیدرآباد نے اخبار کو محض خبروں تک کبھی محدود نہیں رکھا، بلکہ اپنے ادارہ کو اردو زبان سے لے کر فلاحی سرگرمیوں تک سماج سے جوڑے رکھا ہے۔ اُردو سے ناواقف یا کمزور واقفیت والی نئی نسل کی ضرورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ادارہ ’سیاست‘ نے جہاں اُردو سکھانے کا بیڑہ اٹھایا، وہیں اخبار کے صفحات پر انگریزی کو بھی بتدریج شامل کیا جارہا ہے۔ میں بہ یک وقت اُردو اور انگریزی میں قارئین سے جڑنے کی کوشش کروں گا۔ اِن شاء اللہ!
چیف منسٹر دہلی کجریوال نے اپنی نئی میعاد کی دھماکہ خیز شروعات کرتے ہوئے پریس کانفرنس کے ذریعے اپنی عام آدمی پارٹی حکومت کے اختراعی منصوبوں سے عوام کو واقف کرایا۔ کجریوال نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ حکومت دہلی 70 رکنی اسمبلی میں پارٹی (عآپ) کی دوبارہ تقریباً 90% نشستوں کے ساتھ شاندار کامیابی کی خوشی میں تن آسانی یا آرام نہیں کرے گی، بلکہ چیف منسٹر کی حیثیت سے تیسری بار حلف لینے کے ساتھ وہ دہلی کے عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں کی منصوبہ بندی میں اپنی کابینہ کیساتھ مصروف ہوجائیں گے۔
چنانچہ 51 سالہ کجریوال نے پریس کانفرنس میں حکومت کے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں جو کچھ بتایا، اُن میں دو سیاسی و انتظامی اختراعی (Innovative) پروگراموں کا اعلان بڑی دلچسپی کا باعث ہیں۔ یہ دو پروگرام گورنمنٹ اسکولس کی تمام کلاسیس میں سی سی ٹی وی (کلوزڈ سرکٹ ٹیلی ویژن) کیمروں کی تنصیب اور کیمروں کو طلبہ کے والدین سے جوڑنا؛ اور حکومت کی موبائل ایپ سرویس کے ذریعے ریاستی عوام کیلئے لگ بھگ تمام افادی عام (Utility) خدمات کی فراہمی ہے، مثلاً کسی کو ’پان‘ کارڈ مطلوب ہو تو وہ اس سرویس کے ذریعے گھر بیٹھے درخواست کرسکتا ہے اور اسے ضروری چارجس کی ادائیگی پر گھر بیٹھے پان کارڈ وصول ہوجائے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ موجودہ طور پر کسی بھی ریاست میں ایسے پروگراموں پر عمل ہورہا ہے۔مجھے یقین ہے یہ اور اس طرح کے مزید اختراعی پروگرام دہلی کو حقیقت میں مثالی ریاست بنا سکتے ہیں۔
میرا یہ بھی ماننا ہے کہ کجریوال جیسا اعلیٰ تعلیمی قابلیت اور سرکاری کام کا معقول تجربہ رکھنے والا کوئی شخص دیش میں کبھی چیف منسٹر نہیں بنا ہے۔ سرگرم سیاست میں شامل ہونے سے قبل کجریوال نے ’انڈین ریونیو سرویس‘ (آئی آر ایس) میں جوائنٹ کمشنر، انکم ٹیکس، نئی دہلی کی حیثیت سے خدمات انجام دیئے۔ وہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (آئی آئی ٹی) کھڑگپور (ویسٹ بنگال) سے میکانیکل انجینئرنگ گرائجویٹ ہیں۔ کرپشن کے خلاف مہم میں بنیادی سطح پر ’پریورتن‘ تحریک چلانے اور مثالی لیڈر کے طور پر اُبھرنے کے اعتراف میں انھیں 2006ء میں باوقار ’ریمن میگسیسے‘ ایوارڈ دیا گیا۔ حالیہ اسمبلی الیکشن میں کجریوال نے وزیراعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور بی جے پی لیڈروں کی ’فوج‘ کے علاوہ جانبدار میڈیا کی یلغار کا جس خوبی سے سامنا کیا اور سب کو مات دی، اُس کی مثال ماضی قریب کی ہندوستانی سیاست میں نہیں ملتی۔ اُمید ہے کجریوال اپنی ’’ترقی پسند و سکیولر ڈگر‘‘ پر قائم رہیں گے۔
انھوں نے الیکشن کے دوران سی اے اے (شہریت ترمیمی قانون) جیسے متنازع موضوعات پر بڑی خوبی سے اپنا دامن بچائے رکھا۔ مگر اب انھیں حاصل زبردست مینڈیٹ کے پیش نظر نہ صرف سی اے اے بلکہ فوری طور پر درپیش خطرہ NPR (نیشنل پاپولیشن رجسٹر) پر اپنی حکومت کا موقف واضح کرنا پڑے گا۔ قومی دارالحکومت کے علاقے پر مبنی ریاست پر حکومت کرنے والے کجریوال کیلئے سی اے اے، این پی آر کی آزمائش آسان نہیں۔ دیکھنا ہے، اس معاملے سے وہ کس طرح نمٹتے ہیں؟
میرے خیال میں چیف منسٹر کجریوال کے برعکس کم از کم تین نمایاں وزرائے اعلیٰ ایسے ہیں جن کی سیاست اور حکمرانی تضادات سے بھری ہے۔ وہ اقتدار پر اپنی برقراری کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ اُن کے انتخابی وعدے ہو یا حکومت سازی؛ دیگر پارٹیوں سے اتحاد کا معاملہ ہو یا قومی مفاد کیوں نہ ہو، وہ ہر معاملے میں ذاتی مفاد کی تکمیل کیلئے موقع پرستی، دغابازی، وعدہ خلافی، اور گھٹیا سیاسی چالوں سے گریز نہیں کرتے، چاہے ان سے عوام کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہوتا ہو۔ جس حکمرانی میں اقلیت کو پریشانیاں ہوں، وہ خاک کی حکمرانی ہے۔ جس حکومت میں اپوزیشن کو دبایا، کچلا جائے، اور بلیک میل کیا جائے، وہ جمہوریت نہیں بلکہ تاناشاہی ہے۔ حکمرانوں کا جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا، پیٹھ میں سیاسی چھرا گھونپنا، مکاری کرنا، سرکاری خزانہ پر عیش کرنا، آج کے پُرآشوب دور میں کامیاب سیاستدان کی خاصیتیں بن گئی ہیں۔ وہ بھلے ہی کوئی عہدہ ؍ منصب حاصل کرلے میری نظر میں خبیث لیڈر ہے۔
میں سمجھتا ہوں کے چیف منسٹر کے سی آر اس طرح کی منفی خصوصیات کے ساتھ موجودہ طور پر دیش میں سب سے آگے ہیں۔ اُن کی لگ بھگ پوری سیاسی زندگی بالخصوص تقریباً بیس سال قبل چندرا بابو نائیڈو زیرقیادت تلگودیشم پارٹی اور حکومت سے علحدگی کے بعد سے اُن کی سرگرم سیاست وہی منفی خصوصیات سے پُر ہے جن کا اوپری سطور میں تذکرہ کیا ہوں۔
فی الحال سارے ملک اور خاص طور پر مسلمانوں کو سی اے اے، این پی آر سے سنگین چیلنج درپیش ہے۔ ایسے معاملے میں بھی 66 سالہ کے سی آر اپنی مکاری سے باز نہیں آرہے ہیں۔ پھر سوچتا ہوں کہ اَوروں سے کیا گلہ کرنا، خود مسلمانوں کی ’نام نہاد‘ نمائندہ پارٹی مجلس ہی سی اے اے، این پی آر میں سنجیدہ نہیں۔ اب بھی وہ تلنگانہ کی ٹی آر ایس حکومت اور مرکز میں برسراقتدار بی جے پی کی راست یا بالواسطہ مدد کررہی ہے۔ چیف منسٹر تلنگانہ کو نہیں بھولنا چاہئے کہ دیش میں پچاس سال حکمرانی کرنے والی کانگریس کی آج کیا حالت ہے؟ اسد الدین اویسی کو خوب یاد ہوگا کہ تقریباً پچیس سال قبل حیدرآباد میں اُس وقت کے میرے پسندیدہ لیڈر اویسی صاحب (مرحوم) کی حیات میں بانی ایم بی ٹی محمد امان اللہ خان (مرحوم) کی مہم کے نتیجہ میں پرانے شہر کے اسمبلی حلقوں میں مجلس کا لگ بھگ صفایا ہوا تھا۔ صرف ایک سیٹ خود اسد اویسی نے چارمینار سے جیتی تھی۔ کے سی آر اور اسد اویسی دونوں کو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ NPR کو روکنے کے ٹھوس جتن نہ کئے گئے اور قومی و ملی مفاد کا سودا کیا گیا تو اپنے سیاسی نقصان کے خود ذمہ دار ہوں گے۔
ہندوستان میں موجودہ طور پر بدترین ریاستی حکمرانی اترپردیش میں چیف منسٹر ’یوگی‘ آدتیہ ناتھ کررہے ہیں۔ ابتدائے جوانی میں شاید وہ حقیقی معنوں میں ’یوگی‘ رہے ہوں گے، ابھی تو 47 سالہ چیف منسٹر میں ’یوگی‘ جیسی کوئی بات نہیں۔ انھوں نے یو پی کو پولیس راج، ناقص لا اینڈ آرڈر اور انکاؤنٹر کی ریاست، اقلیتوں اور سیاسی حریفوں کو نشانہ بنانے کی مثال بنا رکھا ہے۔ میں پہلے بھی قوی اندیشہ ظاہر کرچکا ہوں کہ یو پی میں گجرات 2002ء کا تجربہ ہوسکتا ہے۔ یو پی میں آئندہ اسمبلی الیکشن 2022ء میں مقرر ہے۔ آنے والا ایک دیڑھ سال واضح کردے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟
چیف منسٹر بہار نتیش کمار ناپسندیدہ سیاست و حکمرانی میں کے سی آر سے مشابہ ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ کے سی آر نے ابھی فرقہ پرست بی جے پی سے کھلے طور پر اتحاد نہیں کیا ہے۔ 68 سالہ نتیش کمار کو موقع پرستی کی مثال کہیں تو بیجا نہ ہوگا۔ موقع سے فائدہ اٹھانا دانشمندی ہے مگر ناجائز فائدہ اٹھانا واجبی نہیں ہوسکتا۔ مجھے گودھرا 2002ء کا واقعہ یاد ہے، جب مرکز کی واجپائی زیرقیادت این ڈی اے حکومت میں نتیش کمار وزیر ریلوے تھے۔ وہ بی ای (نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی، پٹنہ) ہیں۔ گودھرا واقعہ میں سارا مسئلہ ؍ تنازع یہی تھا کہ ایودھیا سے واپس ہونے والے پچاس سے زائد کارسیوکوں کے ٹرین کمپارٹمنٹ کو اندر سے حادثاتی طور پر آگ لگی یا لگائی گئی… یا پھر باہر سے آگ لگا کر کارسیوکوں کو زندہ جلایا گیا؟ کئی ماہرین نے واقعہ کی چھان بین کی لیکن نتیجہ خیز رپورٹ کسی نے نہیں دی یا اگر دی ہو تو حکومت نے منظرعام پر نہیں لائی۔ تاہم، وزیر ریلوے نتیش کمار نے گودھرا کا دورہ کرنے کے بعد بیان دیا کہ کارسیوکوں کے کمپارٹمنٹ کو آگ باہر سے لگائی گئی۔ اور یہی تاثر کے ساتھ چیف منسٹر مودی کے گجرات میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام ہورہا تھا۔
2002ء گودھرا سے 2013ء تک چیف منسٹر مودی کی مخالفت کرنے والے نتیش کمار نے بہار میں آر جے ڈی کو دھوکہ دینے کے بعد بی جے پی سے ہاتھ ملا لیا اور اسی مخلوط حکومت کو اکٹوبر میں اسمبلی الیکشن کا سامنا ہے۔ عادت سے مجبور نتیش کمار نے سی اے اے پر کچھ مخالفانہ موقف ضرور ظاہر کیا مگر فوری درپیش خطرہ NPR پر بہار میں عمل آوری میں تعاون شروع کردیا۔ وہ شاید بھول چکے ہیں کہ بہار میں مسلمانوں کی معقول آبادی موجود ہے اور ابھی تک مسلم اقلیت کو ووٹنگ کا دستوری حق حاصل ہے!
[email protected]