اختلاف رائے، احتجاج جمہوریت کی شان

   

پی چدمبرم

سال 1970 کے ایک دن جب سپریم کورٹ نے ملک کی دیسی ریاستوں کے سابق حکمرانوں کو دیئے جانے والے صرفخاص یا خصوصی وضیفہ کی دستبرداری سے متعلق ایگزیکٹیو آرڈر کو کالعدم قرار دیا تب میں اور میرے ایک نوجوان وکیل دوست نے تاملناڈو کانگریس میں شمولیت اختیار کی اس وقت یوتھ کانگریس کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف چینائی میں واقع مجسمہ لارڈ منڈرو کے قریب ایک احتجاجی دھرنا منظم کیا گیا۔ ہم نے بھی اس دھرنے میں شرکت کی جہاں ہمیں گرفتار کیا گیا اور فوری بعد رہا بھی کردیا گیا۔ جب صرفخاص کو بالآخر دستوری ترمیم کے ذریعہ منسوخ کردیا گیا تب ہم نے سوچا کہ ہمارے احتجاج اور گرفتاری کے نتیجہ میں یہ ترمیم کی گئی اور ہم نے جو موقف اختیار کیا تھا وہ درست ثابت ہوا۔

ہمارا احتجاج دراصل سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ناراضگی کا اظہار تھا۔ اُسی طرح کے احتجاجی مظاہرے ملک کے دیگر مقامات پر بھی منظم کئے گئے تھے۔ سپریم کورٹ نے ہمیں تحقیر عدالت کا مرتکب بھی نہیں پایا اور اس طرح ہمارے خلاف تحقیر عدالت کی کارروائی بھی نہیں چلائی گئی (حالانکہ ہم نے سپریم کورٹ فیصلے کے خلاف احتجاج کیا تھا) اور نہ ہی احتجاجیوں میں سے کسی پر قوم دشمن ہونے کا لیبل چسپاں کیا گیا اور نہ ہی پولیس ایجنسی نے ہم پر بغاوت کے الزامات عائد کئے۔

ناراضگی کی نوعیت
اگر دیکھا جائے تو ایک اختلاف رائے رکھنے والا ذہن دراصل سوچ و فکر کرنے والے شخص کے پاس ہی ہوتا ہے جو عظیم جانچ کی صلاحیت رکھتے ہیں اُن میں ناراضگی کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے۔ ہمارے سامنے ایسے کئی عظیم ججس گذرے ہیں جنہیں ہم بہت بڑے ناراض عناصر کہہ سکتے ہیں کیونکہ اختلاف رائے کسی معاشرہ کے لئے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جسٹس فرینک فورٹر، جسٹس سباراؤ، جسٹس ایچ آر کھنہ اور دیگر ججس اپنے اختلاف رائے کی خاصیت کے باعث ہمارے ذہنوں میں ہیں۔ سیاست اور عوامی زندگی میں ناراضگی کا اظہار احتجاج کی شکل میں کیا جاتا ہے۔ بعض احتجاجی مظاہروں کو بڑے پیمانے پر تائید و حمایت حاصل ہوتی ہے اور وہ ایک بہت بڑے ایجی ٹیشنمیں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ تمام ایجی ٹیشن ایک کاز کے لئے منظم کئے جاتے ہیں اور ان تمام میں حصہ لینے والے کا جذبہ یہی ہوتا ہے کہ جس کاز کے لئے یہ ایجی ٹیشنکیا جارہا ہے وہ کامیاب رہے۔ جہاں تک احتجاجی مظاہروں کا سوال ہے ان میں حصہ لینے والے ہمیشہ کسی بھی صورتحال کا سامنا کرنے اور قربانی دینے کے لئے تیار رہتے ہیں لیکن چند ایسے بھی ہوتے ہیں جو خود غرض ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ایسے احتجاجی بہت کم ہوتے ہیں جو خصوصی حکمت عملی طے کرتے ہوئے اس کے مطابق ہی احتجاج کرتے ہیں اور اس میں آخری نام آندولن جیویز کا ہے۔ اگرچہ یہ ایک قابل فخر لقب ہے لیکن 8 فروری کو راجیہ سبھا میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے آندولن جیویز (ایسے لوگ جن کی زندگی کا دارومدار صرف احتجاجی مظاہروں پر ہوتا ہے) کی شدید مذمت کی۔

ایک عظیم احتجاجی
بیسویں صدی کے پہلے نصف میں اگر کوئی سب سے بڑے اور اعلیٰ آندولن جیویز تھے تو وہ بلاشک و شبہ مہاتما گاندھی تھے جنہوں نے ہمیشہ درست منصفانہ و حق بجانب کاذ کے لئے احتجاج کیا۔ اس سلسلہ میں آپ نمک کی ستیہ گرہ اور کسانوں پر عائد کئے جانے والے محاصل کے خلاف ان کی شروع کردہ احتجاجی مہمات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ گاندھی جی الفاظ کو بنا سجا کر پیش کرنے میں غیر معمولی مہارت رکھتے تھے اور ان کے طاقتور پیغامات میں استعمال ہونے والے الفاظ میں غیر معمولی کشش ہوا کرتی تھی۔ احتجاجی مظاہرے بھی اپنے ناموں کے باعث ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ اس لئے کہ جدوجہد آزادی کے لئے حکمت عملی طے کرنے اور اس کی قیادت کے لئے ذہنی و جسمانی طور پر بہت مضبوط رہنے کی ضرورت تھی۔ سوچ و فکر کی بلندی یعنی پرواز تخیل لازمی سمجھی جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہم آج بلا شک و شبہ گاندھی جی کو حقیقی آندولن جیوی کہہ سکتے ہیں اور ہمیں انہیں بابائے قوم کہنے پر بھی فخر ہے۔

اگر ہم دنیا کے دیگر ملکوں میں احتجاجی مظاہروں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہیکہ ان ملکوں میں بھی عوامی تحریکیوں نے مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کیا۔ 1968 میں ویٹنام جنگ کے خلاف امریکہ بھر کی یونیورسٹیز کیمپس میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے اور ان مظاہروں نے امریکی حکومت کے جھوٹ کو بے نقاب کردیا۔ اس کے چند برسوں میں ہی امریکہ کو جنوبی ویٹنام سے شرمناک انداز میں واپس ہونا پڑا۔ بہار عرب 2011 میں برپا ہوئی تھی ان تحریکوں سے یہی سبق ملا کہ بہتری کے لئے جو انسانی جذبہ پایا جاتا ہے اسے ہمیشہ کے لئے دبایا نہیں جاسکتا۔ اب چلتے ہیں صحافتی آزادی کی جانب اس سلسلہ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شہریوں، سیاسی حقوق؍ شہری آزادیوں اور آزادی صحافت کے درمیان ایک دلچسپ اور گہرا تعلق پایا جاتا ہے جس ملک کا مظاہرہ شہری حقوق کے معاملہ میں بہتر ہوتا ہے وہاں آزادی صحافت بھی مستحکم ہوگی۔ ویسے بھی شہری حقوق کے تحفظ میں میڈیا کا اہم رول ہوتا ہے۔ ان دونوں معاملات میں فن لینڈ اور کئی یوروپی ممالک سرفہرست ہیں جبکہ آحری درجہ سے قریب چین ہے۔ ہمارا ملک ہندوستان درمیان میں ہے امید ہیکہ ہندوستان کا مظاہرہ آنے والے دنوں میں بہتر ہوگا۔ ایڈٹرس گلڈ یا پریس کلب آف انڈیا سے دریافت کیجئے پتہ چلے گا کہ ہر پندرہ روز میں کسی نہ کسی صحافی کی گرفتاری یا پھر ذرائع ابلاغ کی کسی تنظیم اور ادارے پر دھاوے کی شکایت ملے گی لیکن آخر میں وہ خود سپردگی اختیار کرتے ہوئے اپنے آقا کی آواز بن جاتے ہیں ہاں رام ناتھ کوئنگا کو ہم ایک اخبار کے آخری بیباک مالک کہہ سکتے ہیں جو ایک آندولن جیوی تھے۔ جن لوگوں کو دبا جاتا ہے تقریر تحریر اظہار خیال ناراضگی اختلاف رائے، احتجاج، ایجی ٹیشن یا تحریک کی اجازت نہیں دی جاتی وہ بالآخر آندولن جیوی بن جاتے ہیں۔