اخلاق سوز واقعات وجوہات اور تدارک کی راہیں

   

Ferty9 Clinic

محمد نصیرالدین

’’دِشا‘‘ پر ہوئے ظلم اور بربریت پر سارا ملک دہل گیا، ملک کے ہر گوشہ اور طبقہ نے اس شرمناک واقعہ پر غم و غصہ کا اظہار کیا، پارلیمنٹ میں بھی اس واقعہ کی مذمت کی گئی اور مجرمین کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا، پھر کیا تھاسائبرآباد پولیس کے مستعد اور فرض شناس عہدیداروں نے انصاف کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملزمین کا انکاؤنٹر کردیا۔ دشا واقعہ کی حقیقت کیا ہے اور پولیس کا رویہ کتنا مبنی برانصاف ہے، اس کا جائزہ تو قومی ہیومن رائیٹس کمیشن ، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ لے گا، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کیوں بار بار وقوع پذیر ہورہے ہیں؟ اور اس طرح کے واقعات میں کیوں روز بہ روز اضافہ ہوتے جارہا ہے؟ نیشنل کرائم ریسرچ بیوروکی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں 2012ء میں 24,923 اور 2017ء میں 32,500 عصمت دری کے واقعات ریکارڈ کئے گئے۔ اعداد و شمار شاہد ہیں کہ اس جرم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اس سے زیادہ افسوس و تشویش کا نکتہ یہ ہے کہ محض 29% واقعات ہی درج رجسٹر ہوتے ہیں اور 71% واقعات کو دبا دیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس طرح کے واقعات پر غم و غصہ اور افسوس کا بھرپور اظہار کیا جاتا ہے۔ موم بتیاں جلائی جاتی ہیں، احتجاج کیا جاتا ہے اور بیان بازی میں مسابقتی بھی دیکھنے کو ملتی ہے لیکن ان واقعات کے اسباب اور ان کے تدارک کے سلسلے میں کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ کیا ایک باشعور انصاف پسند سماج کا یہ رویہ صحت مند کہلایا جاسکتا ہے؟ آیئے! دیکھیں کہ صنف نازک کے خلاف جرائم کی آخر کیا وجوہات ہیں اور ان کے تدارک کیلئے کیا جاسکتا ہے۔

سب سے اہم وجہ جو غوروفکر کی حامل ہے، وہ یہ کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی نے جہاں انسانی زندگی کے کئی ایک مسائل کو حل کیا ہے، وہیں اس شعبہ نے جنسی آوارگی کو شرمناک حد تک بڑھاوا دیا ہے۔ نوجوانوں میں جنسی ہیجان پیدا کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود تمام غیراخلاقی، عریاں اور ہیجان انگیز مواد اور ساری فلموں پر مکمل پابندی لگا دی جائے اور ان سائیٹس کے بنانے والوں اور پھیلانے والوں کیلئے سخت سزا متعین کی جائے تاکہ نئی نسل کی سوچ و فکر اور کردار اور عمل کو مجرمانہ سوچ و عمل سے محفوظ رکھا جاسکے۔ دوسری وجہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا خود غرضانہ اور غیرذمہ دارانہ رویہ ہے۔ ہر دو میڈیا کی ذمہ داری اور فرض ہے کہ وہ معاشرہ کو صحت مند پر امن اور اتحاد کا گہوارہ بنانے کی کوشش کریں۔ قارئین اور ناظرین کے سماجی معاشرتی اور معاشی مسائل کے حل کو پیش کریں اور مجموعی طور پر سماج، معاشرہ اور ملک کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کریں لیکن افسوس کہ اخبارات، رسائل اور ٹی وی پر خود غرض، سرمایہ داروں کا ایک پورا لشکر قابض ہے جو فحش مضامین، شرمناک عریاں تصاویر اور ہیجان انگیز مٹیریل اور فلموں کے ذریعہ نئی نسل کی سوچ و فکر اور حوس میں ہیجان برپا کرنے میں لگے ہوئے ہیں، انہیں صرف دولت کمانے سے مطلب ہے۔ جرائم کی رپورٹنگ بھی چٹخارے لگاکر اس طرح کی جاتی ہے کہ معصوم ذہن میں جرم کی رغبت پیدا ہوکر وہ بھی نت نئے جرائم کرنے لگ جاتا ہے۔ جنسی جرائم ہی نہیں بلکہ ہر قسم کے جرائم پر روک لگانے کے لئے ضروری ہے کہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کیلئے ایک سخت ضابطہ اخلاق مدون کیا جائے اور اس کی پابندی ان کے لئے لازم قرار دی جائے۔ جنسی جرائم کے فروغ کی تیسری اہم وجہ حکومت کی ناعاقبت اندیشانہ تعلیمی پالیسی ہے جو نئی نسل کے اخلاق و کردار کو تو سنوار نہیں سکی برخلاف اس کے ’’جنسی تعلیم‘‘ کی ذیل میں محفوظ شہوت رانی کی طرف انہیں متوجہ کرنے کا باعث بن گئی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ تعلیم گاہیں اور ہاسٹل جنسی بے راہ روی کے محفوظ مراکز بننے لگے اور وہاں تعلیم سے زیادہ جنسی تفریح پر توجہ مرکوز ہوگی۔ حکومت کو اس سلسلے میں فوری متوجہ ہوکر تعلیمی پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے تعلیمی نصاب میں جنسی تعلیم کے بجائے اخلاقی تعلیم کو شامل کرنا چاہئے۔ جنسی جرائم کی چوتھی وجہ نائٹ کلبس، پبس اور اسٹار کلچر ہے جس نے مردوں اور عورتوں کو آزادانہ میل ملاپ اور بے ہنگم اختلاط کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ کیبرے ڈانس، جڑواں ناچ اور رقص و سرور کے پروگراموں نے حسن و جمال کی نمائش، عریانی، برہنگی، شوق و تنگ لباس بلکہ بے لباسی تک پہنچا دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا انجام اضافی صنفی تعلقات اور آماد شہوت رانی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ سب مغربی تہذیب کے کڑوے اور کسیلے پھل ہیں جس کی آبیاری بدقسمتی سے اس ملک میں بھی بڑی شان و فخر سے کی جارہی ہے جس کی وجہ سے عصمت و عفت کی خرید و فروخت ہونے لگی ہے۔ صنف نازک کی بولیاں لگائی جارہی ہیں اور صنف نازک کی وضع قطع کی قیمت متعین کی جانے لگی ہے لیکن افسوس کہ ملک کے مذہبی، سماجی اور سیاسی رہنما عورت کے حقوق کی دہائی تو دیتے ہیں لیکن اس کی عصمت و عفت کو تار تار کرنے والے ذرائع پر پابندی کا مطالبہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے معصوم خواتین اپنی عفت و عصمت سے محروم ہوتی جارہی ہیں ، اس لئے ضروری ہے کہ صنف نازک کو سامان تفریح میں تبدیل کرنے والے تمام پروگراموں پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔ پانچویں افسوسناک وجہ یہ کہ فحاشی کے کاروبار کو سند دے کر حکومت نے ساری حدوں کو توڑ دیا اور کاروبار وسیع کرنے اور اس سے استفادہ کرنے کی مسابقت نے سماج اور معاشرہ کو جنسی آوارگی اور بے راہ روی کی راہ پر ڈال دیا ، چنانچہ شاید ہی ملک کا کوئی چھوٹا یا بڑا شہر بچا ہو، جہاں اس کاروبار کی دھوم نہ ہو، کیا ایسا ممکن ہے کہ بے حیائی کے کاروبار دھڑلے سے ہوں اور عصمت و عفت محفوظ بھی ہو؟ لہذا حکومت کو چاہئے کہ فحاشی کے ہر قسم کے کاروبار پر سختی سے پابندی عائد کرے تاکہ اس کی آڑ میں تمام خواتین کی عصمت و عفت داؤ پر نہ لگ جائے۔ جنسی جرائم کے فروغ کی چھٹی اہم وجہ بے لگام مخلوط کلچر کا فروغ ہے جو کہ مغرب کی نقالی کی وجہ سے در آیا ہے اور معرب کی اندھی غلامی کی وجہ سے اسے آزادی نسواں سمجھا جاتا ہے لیکن اس بات پر غور کرنے کی شاید ہی کوشش ہوتی ہو کہ اس کلچر نے کیا کیا گل کھلائے ہیں اور اس کلچر کی بدولت اسکول، کالجس اور کام کے مراکز پر عشق و عاشقی، خفیہ اور رجسٹرڈ شادیوں کے واقعات روز بہ روز بڑھتے جارہے ہیں، کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ مخلوط کلچر پر بندہ باندھا جائے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے علیحدہ علیحدہ تعلیم کے مراکز شروع کئے جائیں اور کام کے مراکز اور دفاتر میں دونوں صنف کے درمیان خط فاصل رکھی جائے تاکہ غیرضروری تعلق، اختلاط اور ربط ضبط جذبات کو برانگیختہ کرتے ہوئے ناجائز رشتوں کا باعث نہ بننے پائے۔ جنسی جرائم کی ساتویں وجہ مغرب کی تقلید اور فلمی ایکٹرس اور ماڈلز کی پیروی میں شرم و حیاء کے لباس کو ترک کرتے ہوئے جسم کی بھرپور نمائش کرنا بلکہ بے لباسی کا اختیار کرنا بھی شامل ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے لباس زیب تن کرنا اور جسم کے پوشیدہ حصوں کی نمائش کرنا دور ِجدید کا نیا مرض ہے جس سے صنف مخالف کے جنسی جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور ان کی تسکین کے لئے جانور جیسی حرکات کرنے لگ جاتا ہے۔ حکومت نے انسانی جاں کی حفاظت کیلئے جس طرح ہیلمٹ کا لزوم کیا ہے، ویسے ہی نئی نسل کے اخلاق و کردار کو بچانے اور خواتین کی عصمت و عفت کی حفاظت کے لئے ایک ساتر اور مہذب لباس کا اہتمام خواتین پر لازم کرنا ضروری ہے تاکہ صنف مخالف کے نہ جذبات برانگیختہ ہونے پائیں اور نہ ہی کوئی خاتون جنسی زیادتی کا شکار ہو۔
جنسی زیادتیوں کا آٹھواں سبب کال سنٹرز اور آئی ٹی کمپنیز کی نائٹ ڈیوٹیز ہیں۔ راتوں میں کام کرنے والوں کیلئے مختلف کمپنیز مختلف طرح کی تفریح طبع اور رقص و سرور کا اہتمام کرتی ہیں، جہاں مرد و عورتیں کیلئے آزادانہ طور پر کیف و مستی کا اہتمام کرتی ہیں اور اس دوران تمام حدود و قیود کو بالائے طاق رکھ کر ہر طرح کے تعلق کو قائم کرلیتی ہیں۔ جب کیف و مستی کا نشہ اُترتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ ان کی عصمت و عفت لٹ چکی ہے۔ صنف نازک کو جنسی زیادتیوں سے بچانے کیلئے ’’اُم الخبائث‘‘ یعنی شراب مکمل پابندی بھی ضروری ہے۔ اس نکتہ پر تمام اہل نظر اور سنجیدہ اصحاب فکر و دانش کو غور کرنا چاہئے کہ اس ام الخبائث نے کتنے خاندانوں کو اجاڑا ہے۔ کتنی خواتین کی عصمت کو تار تار کیا ہے، کتنے حادثات اس کی وجہ سے ہوئے ہیں اور ان حادثات کی وجہ سے کتنی خواتین بیوہ اور کتنے شیرخوار یتیم اور بے سہارا ہورہے ہیں۔ ام الخبائث کتنی ہلاکتوں کا باعث بنی ہے اور کتنے جرائم اس کے اثر سے رونما ہوتے ہیں؟ اسی طرح کتنے لوگ اس کی وجہ سے ہلاکت خیز امراض کا شکار ہورہے ہیں اور اس شراب کی وجہ سے حکومت کا کتنا بجٹ ضائع ہورہا ہے؟ محض شراب سے ہونے والی آمدنی کو بنیاد بناکر اس کی وجہ سے ہونے والے نقصانات اور تباہ کاریوں سے نظریں چرانا کوئی معقول طرز عمل نہیں ہوسکتا۔ اگر حقیقت پسندانہ سروے کریں تو معلوم ہوگا کہ شراب کی آمدنی کے مقابل اس سے ہورہی تباہی و بربادی زیادہ خطرناک اور مہلک ہے لہذا اس پر پابندی لگانا وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ آخری چیز جو ایک صحت مند اور پرامن معاشرہ کے لئے لازم ہے۔ وہ بلاتاخیر انصاف کی فراہمی ہے۔ درندگی اور حیوانیت کا مظاہرہ کرنے والوں کو جب تک قرار واقعی اور عبرتناک سزائیں نہ دی جائیں ، اس طرح کے جرائم کا انسداد اور روک تھام ناممکن ہے۔ چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ریاست میں ایک فاسٹ ٹرائل کورٹ قائم کی جائے اور اس طرح کے جرائم کے مقدمہ اور فیصلے کے لئے زیادہ سے زیادہ تین ماہ کا وقت مقرر کردیا جائے اور اس طرح کے مجرمین کے لئے سزائے مدت کا تعین کرتے ہوئے برسر عام سر قلم کیا جائے۔ خواتین کے خلاف ہورہے جرائم کے انسداد کے لئے مندرجہ بالا تجاویز سپرد قلم کی گئی ہیں لیکن تعجب افسوس اور حیرت اس بات پر ہے کہ اہل اقتدار، دانشور، پالیسی اور منصوبہ بندی کرنے والے اہل علم معاشرہ میں سر اٹھانے والی برائیوں کے اسباب اور وجوہات کو نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے سدباب کے سلسلے میں غوروفکر کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی زیادتی اور ناانصافی کے واقعہ پر محض افسوس یا غم و غصہ کا اظہار کردینا ہرگز معقول طرز عمل نہیں کہا جاسکتا۔ اصحاب فکر و نظر کی ذمہ داری ہے کہ وہ جرائم کے اسباب کو تلاش کریں اور ان کے سدباب کی کوشش کریں۔ آخر وہ بڑی بڑی ڈگریاں، اسناد اور اعزازات کس کام کے ، اگر ان سب کے رہنے کے باوجود کوئی فرد، سماج اور معاشرہ کے لئے کارآمد اور مفید نہ بن سکے۔
تعجب ہوتا ہے ان افراد پر بھی جن کے پاس کتاب ہدایت موجود ہے جن کے پاس ایک اسوہ حسنہ بھی پایا جاتا ہے لیکن وہ بھی دیگر لوگوں کی طرح درندگی اور بربریت کے واقعات پرمحض اشک شوئی کرکے چپ ہوجاتے ہیں۔ موم بتی جلاکر اور بیان بازی کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ وہ ملک اور سماج کی اصلاح اور رہنمائی کیلئے ہدایت ربانی کی صدا بلند نہیں کرتے۔ آفاقی اصولوں اور ضوابط سے اہل ملک کو بہ بانگ دہل آگاہ نہیں کرتے ، دعوت دین آخر کس چڑیا کا نام ہے۔ ملک میں سینکڑوں جماعتیں ادارے انجمن اور مدارس موجود ہیں اور بے پناہ وسائل سے وہ مالامال بھی ہیں، ہزاروں قائدین، رہنما، علماء اور دانشور بھی موجود ہیں اور بے پناہ وسائل سے وہ مالامال بھی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس ملک اور یہاں کے عوام کو راہ ہدایت سے کون آشنا کرائے گا؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ حاملین کتاب کی بے عملی، کتاب سے دوری، دنیا پرستی اور آخرت سے دوری کی وجہ سے ملک کی پارلیمنٹ میں یکے بعد دیگرے عرصہ حیات کو تنگ کرنے والے قوانین پاس ہونے لگے ہیں۔ کاش کہ ملت اور ان کے رہنما ہوش کے ناخن لیں اور اپنی مفاد پرستی کو ترک کریں اور سنجیدگی، دلسوزی اور حکمت کے ساتھ پیغام ہدایت سارے ابنائے وطن کے سامنے بلاتفریق پیش کریں تاکہ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق ان کے تعصب اور مخالفت کا ازالہ ہوسکے!
اپنے تخلیق کے مقصد پہ کبھی غور کرو
پھر ذرا طرز عمل اپنا خدارا دیکھو