نایاب مخطوطات اور ہزاروں کتابوں کا مرکز، در و دیوار کمزور، کتابوں کی ڈیجٹلائزیشن
حیدرآباد 7 ستمبر (سیاست نیوز) حیدرآباد کے پنجہ گٹہ علاقہ میں واقع ایوان اُردو جسے ادارہ ادبیات اُردو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اپنے تعمیراتی کمال کیلئے نمایاں ہے۔ اس میں موجود محراب والی کھڑکیاں شہر کے سب سے اہم ثقافتی ورثوں میں سے ایک ہے۔ ادارہ ادبیات اُردو کی عمارت میں نایاب مخطوطات، خطاطی کے پیانلس اور قدیم کتابیں جس میں صدیوں پرانی کہانیاں موجود ہیں، اس ادارہ کو خود جدید دور میں بقاء کا چیلنج ہے۔ یہ ادارہ 1931ء میں ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورؔ کے دور میں قائم کیا گیا تھا جو ان کی شاعرہ اہلیہ تہنیت النساء کی طرف سے تحفے میں دی گئی تھی۔ ایوان اُردو کا تصور ایک لائبریری سے زیادہ تھا۔ یہ دکن کے ادبی ورثے کے لئے ایک پناہ گاہ ہوتا تھا جو فارسی، دکنی اور عربی کاموں تک پھیلا ہوا تھا۔ اس ادارہ میں 2600 نادر مخطوطات سمیت تقریباً 50 ہزار کتابوں کا ذخیرہ ہے۔ یہاں پر فلسفہ اور تاریخ سے لے کر اُردو، فارسی، عربی اور گور مکھی میں شاعری اور الہیات تک سب کچھ موجود ہے۔ یہ عجائب گھر صرف کتابوں کی نمائش نہیں کرتا بلکہ یہ حیدرآباد کی ثقافتی کہانیوں کو دکنی، چھوٹے پینٹنگز، خطاطی کے پیانلس، سکّے، فرمان، بیدی ویر، ٹیکسٹائیل اور قدیم گنجینہ کارڈس کے ذریعہ بیان کرتا ہے۔ یہ خزانے شہر کی فنکارانہ روح سے گونجتے ہیں۔ ایوان اُردو کا تعلیمی مقصد بھی ٹھوس ہے۔ اُردو خطاطی میں دو سالہ مفت ڈپلوما اسکرپٹ جیسے نستعلیق، خط شکستہ، کوفی، آئینہ لکھنا اور آرائش خط گبر سکھاتا ہے۔ تاحال متعدد اور نامور خطاط استاد اس ادارہ سے وابستہ رہے ہیں۔ موجودہ طور پر 3500 سے زائد طلباء نے استاذ خوشنویس جناب عبدالغفار سے سیکھا ہے جو یہاں کے ایک طالب علم اور استاد دونوں ہیں۔ ان تاریخی محرابوں کے نیچے ایک دھندلی دنیا ہے۔ اسکالرس نے نوٹ کیاکہ تاریخ کو محفوظ کرنے کے لئے جو جلدیں ہیں وہ خود ہی کمزور ہیں۔ کتابوں کی حالت خستہ ہوچکی ہے۔ سیاہی مٹ رہی ہے، بندشیں زوال کا شکار ہیں۔ فوری بحال کے بغیر حیدرآباد کی اپنی ثقافتی یادداشت کے ابواب کو کھونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ ایوان اُردو میں بھی آنے والوں کی تعداد کم ہوگئی ہے جو کبھی ہندوستان ہی نہیں بلکہ جاپان، مصر، بنگلہ دیش اور کینیڈا جیسے ممالک کے اسکالرس بھی آتے تھے۔ وہ تیزی سے کم ہورہا ہے۔ ریختہ فاؤنڈیشن کے ساتھ تعاون کی بدولت 22 ہزار سے زیادہ کتابوں اور جرائد کو ڈیجیٹل کیا جاچکا ہے جو اب کسی بھی اسکرین سے عالمی سطح پر قابل رسائی ہے۔ وہ ان دھول بھرے شیلف کو ڈیجیٹلائزڈ شکل میں محفوظ کررہے ہیں۔ (ش)