ادبی‘ صحافتی اور نشریاتی ابلاغیات کے مردِ مجاہد ۔ عابد صدیقی

   

پروفیسر مجید بیدار
سابق صدر شعبۂ اردو ۔ جامعہ عثمانیہ۔ حیدرآباد
حیدرآباد کی سرزمین میں آزادی کے بعد مسلم کمیونٹی کو مذہبی تعلیم اور دینی تربیت سے وابستہ کرنے والے اہم اداروں میں ’’انجمن قادریہ‘‘ کی خدمات اہم کارنامہ کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس ادارہ کی جانب سے نہ صرف اردو میں اسلامی تعلیمات سے متعلق کتابیں مرتب کرکے شائع کی جاتی رہیں‘ بلکہ مساجد میں موجود ناظرہ قرآن کے مراکز میں نظری اور عملی امتحانات مقرر کئے جاتے رہے اور نتیجہ نکلنے کے بعد کامیابی سے ہمکنار ہونے والے طلبا اور طالبات کو سندوں سے سرفراز کیا جاتا رہا۔ شہر حیدرآباد میں شاہ علی بنڈہ سے قریب واقع مشہور علاقہ ’’قاضی پورہ‘‘ کی شہرت خدا پرست بزرگوں اور دینیات کے مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ اسی علاقہ میں مسجد ِ نور کے نورانی فیوضات سے مختلف دینی سرگرمیوں کو سرفرازی حاصل ہوئی۔ ہر سال اسلامی تعلیمات سے وابستہ ابتدائی‘ تحتانیہ‘و سطانیہ اور فوقانیہ کے امتحانات مقرر کئے جاتے تھے۔ ایسے موقع پر دینی مدارس کے طلبہ کی ریالی کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ اس موقع پر عین عالم جوانی کے دوران اعلامیہ کے ستھرے ہوئے لہجے کے ساتھ آواز کا جادو جگاکردلوں کو مسخر کرنے والے فرد خدا پرست کی حیثیت سے عابد صدیقی کو پہلی بار دیکھا۔ 1962-1963ء کے دوران سیرت النبیؐ کے جلسے اگرچہ حیدرآباد کے مختلف محلہ جات میں منعقد ہوا کرتے تھے۔ اس دور میں انجمن قادریہ کے سیرت کے جلسوں کا اہتمام بادشاہی عاشورخانے میں ہوا کرتا تھا۔ جس میں مسلمان علماء کے علاوہ دوسرے مذاہب کے افراد بھی سیرت ا لنبیؐ کے موضوع کا احاطہ کرتے تھے‘ جن میں شہریار کادس جی کی شرکت لازمی ہوتی تھی۔ طلبہ کی ریالی کے درمیان اعلانات کے دوران رواں کامنٹری کا حق ادا کرنے کی خصوصیت عابد صدیقی کی جادوبیانی کا حصہ تھی۔ جس کے ذریعہ وہ نئی نسل کو اپنی جانب متوجہ کرلیتے تھے۔ غرض ان کی مذہبی دلچسپی اور نئی نسل کی تربیت کے رجحان سے وابستگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انفرادی کاموں کے بجائے اداروں کی سرگرمیوں اور ادارہ جاتی خدمات کو اہمیت کا حامل قرار دیتے رہے۔ بی ایس سی کی تکمیل کے بعد 1973ء میں ان کی کتاب ’’ادب اور صحافت‘‘ شائع ہوئی اور اس اہم کارنامہ کی وجہ سے انہیں جامعہ عثمانیہ کے لکچرر کی حیثیت سے ورنگل کے کالج میں اردو لکچرر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ وہ زیادہ عرصہ تک اس ملازمت سے وابستہ نہیں رہ سکے۔ جامعہ عثمانیہ کے سپوت کی حیثیت سے پروفیسر رفیعہ سلطانہ اور ڈاکٹر غلام عمر خاں کی خدمات سے فیض یاب ہوتے رہے۔ ان کی مشہور کتاب ’’ادب اور صحافت‘‘ کی رسمِ اجراء ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ واقع نامپلی کے کانفرنس ہال میں منعقد کی گئی تھی۔ اس محفل میں ادب اور صحافت کے توازن کا ثبوت فراہم ہوا تھا۔ لیکن صحافت سے وابستہ افراد کی عدم دلچسپی محسوس کی گئی۔ جس کے بعد انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لئے آئیڈیل انگریزی اسکول کے انتظامی امور سے وابستگی اختیار کی۔ کچھ وقفہ کے لئے اخباری صحافت کا حق ادا کرنے کے لئے حیدرآباد کے مقبول روزنامہ ’’رہنمائے دکن‘‘ کے شعبہ ادارت سے وابستہ رہے۔ پھر انہوں نے ہندوستان گیر سطح پر اردو کی خدمت انجام دینے والے مرکزی ادارے ترقی اردو بورڈ سے وابستگی کو قطعیت دیتے ہوئے دہلی کو آباد کردیا۔ اس طرح ادبی تاریخ میں ولی اورنگ آبادی کے بعد دکن سے دہلی کے سفر کا شرف حاصل کیا۔ عابد صدیقی اگرچہ دکنی باشندے قرار پائے۔ لیکن حیدرآباد دکن سے دہلی کا سفر کرکے ہندوستان کے ہمہ جہت اشاعتی ادارہ کی خدمت کو شعاربناکر صلاحیتوں کی نمائندگی کا فریضہ انجام دیا۔
حیدرآباد میں روزنامہ سیاست کے ذریعہ اہم کالم ’’مکتوب ِ لندن‘‘ کے کالم نویس عابد صدیقی کے بڑے بھائی نصیراختر صدیقی کی لندن کی اطلاعات ہفتہ وار شائع ہوتی تھیں۔ حیدرآبادی باشندے نے ولایتی ملک میں قیام کے ذریعہ اردو کی خدمت اور اردو صحافت کی بزم آرائی کا موقع فراہم کیا‘ جو اردو داں حضرات کے لئے خوشی کا باعث رہا۔ ان کے دوسرے بھائی حامد صدیقی اس دور کی برسراقتدار سیاسی جماعت کانگریس کے خاموش خدمت گزار اور ڈاکٹرایم چناریڈی کے دست ِ راست تھے۔ اس دور میں وزیر داخلہ نواب میر احمد علی خاں کی دیوڑھی واقع مغل پورہ نئے سال کا مشاعرہ اور ہفتہ میں ایک مرتبہ مغل پورہ میں متوطن غیاث صدیقی کے مکان پر غزلوں کی محفل ’’ساز اور آواز‘‘ منعقد ہوتی تھی۔ اس دوران کلیم صدیقی کے مزاحیہ ایٹم کو شہرت کی بلندی حاصل ہوچکی تھی۔ اسی دوران حامد کمال اور دوسرے مزاح سے رغبت رکھنے والے حیدرآبادیوں کو طنز و مزاح کو نمایاں کرنے کا موقع مل گیا۔ یہ وہی دور ہے‘ جبکہ نمائش میدان کے احاطہ کے ذریعہ صنعتی نمائش میں چھوٹے نواب کی گفتگو نشر ہونے سے عوام کی دلچسپی عروج پر تھی۔ 1962ء اور 1963ء کے دوران ریاست آندھرا پردیش کے وزیرِ داخلہ کو بھی کسی قسم کی سیکوریٹی موجود نہیں تھی اور وہ پیدل راستے سے گزرتے اور شہریوں سے ملاقات کرتے تھے۔ ان کی اردو سے دلچسپی کے نتیجہ میں ان کے مکان پر نئے سال کے مشاعرے اور وقفہ وقفہ سے ہنسی مذاق کی محفلیں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ عابد صدیقی کے چھوٹے بھای زاہد صدیقی سعودی سے واپس ہوکرحیدرآباد میں مقیم ہیں۔ غرض ایسے ماحول میں‘ جبکہ مغل پورہ کے علاقہ کو تعلیمی درسگاہوں کا محلہ قرار دیا جاتا تھا‘ اسی محلہ میں عابد صدیقی اور ان کے مرحوم دوست ابراہیم خلیل ایڈوکیٹ سے ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔ عابد صدیقی کو اردو ادب سے دلچسپی تھی اور وہ خطابت کے ذریعہ چھپے ہوئے جوہر کا مظاہرہ کرتے تھے۔ انہوں نے ادبی سرگرمیوں سے زیادہ عملی کاموں سے دلچسپی کا ثبوت دیا۔ مغل پورہ جیسے پرانے شہر کے محلہ سے وابستگی اختیار کرکے قاضی پورہ کی متوطن شخصیت نے حیدرآباد سے دہلی کا سفر کیا اور پھر دوبارہ لوٹے تو پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے عہدیدار کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ اس دور میں اورنگ آباد سے آمد کے موقع پر ان کے دفتر میں ملاقات کاشرف حاصل ہوا کرتا تھا۔ اس دور میں صحافت کا سرکاری دفتر موجودہ نیلوفر ہوٹل کی روبرو عمارت میں موجود تھا۔ اورنگ آباد سے حیدرآباد لوٹنے کے دوران ملاقات کے مواقع کی وجہ سے ادب اور صحافت کے اس امین سے ملاقات پر خوشی ہوتی تھی۔ ان کی پہلی کتاب ہی ان کی عملی زندگی کے اظہاری رویے کی یادگار قرار پاتی ہے۔
عابد صدیقی فطرت کے اعتبار سے بڑے ملنسار اور دوسروں کو عزت دینے والی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ گوکہ وہ عمر اور رتبہ میں ہم سے بڑے تھے۔ لیکن ہمدردانہ اور مساویانہ سلوک کی وجہ سے نہ صرف ہم خود‘ بلکہ ہمارے دوسرے دوست بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ روزنامہ ’’سیاست‘‘ کے توسط سے عوامی خدمت کے کارنامے انجام دیئے۔ جس میں ’’دوبدو ‘‘ پروگرام آج بھی جاری ہے۔ جس میں عابد صدیقی کی شرکت لازمی تھی۔ غرض طویل عرصہ تک وہ حیدرآباد سے دور ہوئے تو امریکہ میں زیرِ علاج رہ کر ہندوستان کی سرزمین کی ادبی‘ صحافتی اور سماجی سرگرمیوں کو امریکہ کی سرزمین میں پیوست کردیا۔ امریکہ کی سرزمین میں ان کی دل کی بیماری کا علاج ہوااور طویل عرصہ کے بعد حیدرآباد واپس ہوئے تو روزنامہ سیاست کی مسلم سماجی سرگرمیوں میں دلچسپی اور عملی اقدامات میں زندگی گزار دی۔ گزشتہ دو ماہ سے زیادہ وقفہ کے دوران بیماری میں مبتلا ہوکر دواخانہ میں شریک رہے اور دواخانہ سے گھر لوٹنے کے چند دنوں بعد 18 مارچ کو صبح 8 بجے اپنے خالق ِ حقیقی سے رشتہ جوڑلیا۔ غرض عابد صدیقی کی شخصیت کو تحریکی خصوصیات کا حامل اور نئی نسل میں ادب اور مذہب کا جوش منتقل کرنے والا بندۂ خدا قرار دیا جائے گا۔ خدا سے دُعا ہے کہ ایسے خدمت گزار بندوں کا نعم البدل پیدا کردے۔