ارادے ہوں جواں جن کے وہی بازی پلٹتے ہیں

,

   

مدرسوںپر بلڈوزر … نماز پر پابندی
آسام اور کرناٹک ہندوتوا کی فیکٹری

رشیدالدین
ظلم اور ہراسانی کی بھی ایک حد ہوتی ہے، تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی ظلم نے حدود سے تجاوز کیا قدرت نے اسے مٹادیا۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں ہندوتوا ایجنڈہ پر جس تیزی سے عمل کیا جارہا ہے ، دراصل یہ ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی جلدی ہے۔ بی جے پی نے اپنی زیر اقتدار بعض ریاستوں کو ہندو توا کی تجربہ گاہ میں تبدیل کردیا ہے اور ہر ریاست میں نت نئے موضوعات اور مسائل کے ذریعہ مسلمان نشانہ پر ہے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ مسلمانوں کو دستور اور قانون کے مطابق حاصل مراعات کو بھی ختم کرنے کی تیاری ہے ۔ اسلام اور مسلمانوں سے جڑا ہوا کونسا شعبہ ایسا نہیں جس پر اعتراض نہ کیا گیا ہو۔ پیدائش سے لے کر موت تک کے تمام مراحل میں مسلمانوں کو اسلام پر چلنے کی اجازت نہیں ۔ بنیادی حقوق سنگھ پریوار کی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں۔ رب چاہی زندگی کے بجائے مسلمانوں کو بی جے پی کی شرائط پر زندگی گزارنے کیلئے مجبور کیا جارہا ہے ۔ اذان ، نماز ، قربانی ، مذہبی تعلیم ، مدرسہ ، غذا ، زائد بچوں، ایک سے زائد شادی حتیٰ کہ اپنی پسند کے کھانے اور پکانے پر بھی اعتراض ہے۔ وہ دن دور نہیں جب لباس ، داڑھی ، قرآن ، حلیہ حتیٰ کہ آزادانہ گھومنے پھرنے پر بھی پابندی عائد کی جائے گی۔ مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کا مقصد حوصلوں کو پست کرنا اور دوسرے درجہ کے شہری کا احساس دلانا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب مسلمانوں مزاحمت کے بجائے احساس کمتری کو اختیار کرلیں تو ہندو راشٹر کے اعلان میں دیر نہیں لگے گی اور یکساں سیول کوڈ بھی نافذ کردیا جائے گا۔ ہر شعبہ اور ہر سطح پر مسلمانوں کو ہراسانی کے باوجود دو ایسے حقوق ہیں جو تنگ نظر اور جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو ایک لمحہ بھی برداشت نہیں ۔ شہریت اور ووٹ کا حق یہ دونوں ہندو راشٹر کی راہ میں اہم رکاوٹ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلم قائد نے کہا تھا کہ مسلمانوں کو ہر لمحہ تکلیف دینے کے بجائے ووٹ کے حق سے محروم کردیا جائے تاکہ ’’نہ رہے بانس نہ بجے بانسری‘‘ مسلمانوں میں رہی سہی مزاحمت جس دن ختم ہوجائے گی وہ دن اسپین کی طرح مسلمانوں کے زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ مسلمانوں کو یکا و تنہا اور بے سہارا کرنے کے لئے مذہبی اور سیاسی قیادتوں کو ختم کردیا گیا ۔ لالچ یا پھر دھمکیوں کے ذریعہ قیادتوں کو ذمہ داریوں سے دور کردیا گیا ، اس کے بعد مسلمانوں کا اعتبار قیادتوں پر سے ختم ہوگیا۔ جس دن سے قیادتوں کا رول عام مسلمانوں کی نظر میں مشکوک ہوگیا ، پھر کیا تھا سنگھی عناصر نے مسلم قوم اور قیادتوں کے درمیان خلیج پیدا کردی۔ حکومت کے آگے ڈٹ جانے والی قیادتوں کو مقدمات کے ذریعہ کمزور کیا گیا ۔ ملک کے تمام تر حالات اور واقعات دراصل مزاحمت سے محرومی کا نتیجہ ہیں ۔ فرقہ پرست طاقتیں کچھ بھی کرلیں مسلمان قبول کرنے تیار دکھائی دے رہے ہیں ۔ عزیمت کا راستہ ترک کرنے سے ہزیمت مسلمانوں کا مقدر بن چکی ہے ، ورنہ حکومتوں کو یہ ہمت نہ ہوتی کہ مساجد اور مدرسوں پر بلڈوزر چلاتے۔ آزمائش کے اس دور کا خاتمہ اور نجات حاصل کرنا مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ جدوجہد اور مزاحمت کے بغیر خدا سے مدد کی امید کرنا عبث ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ اس وقت تک کسی قوم کی مدد نہیں کی جاتی، جب تک وہ قوم خود تبدیلی کیلئے تیار نہ ہو۔ اب وقت آچکا ہے کہ مسلمان یہ طئے کرلیں کہ انہیں ہندوستان میں محکوم یا کرایہ دار نہیں بلکہ ملک کی ترقی میں حصہ دار کے طور پر اپنا حق حاصل کرنا ہے ۔ عزت اور وقار عزیز ہو تو مظالم کو سہنے اور برداشت کرنے کے بجائے آواز بلند کرنا ہوگا۔ ظلم کو سہہ لینا ظالم کی مدد کے برابر ہے ۔ مظالم اور مصائب کے تذکرہ سے قبل ہم نے درکار حکمت عملی اور مزاحمت کی ضرورت کا ذکر محض اس لئے کیا تاکہ حالات جاننے کے بعد قوم میں غیرت ایمانی اور حمیت ملی جاگ اٹھے۔ قوموں کے عروج و زوال میں احساس کمتری اور جذبہ حریت کا تذکرہ ضرور ملے گا۔ جب قوم نے محکومی اور غلامی کے طوق کو گلے کا ہار بنالیا ، وہ قوم کبھی کامیاب و کامران نہیں ہوئی۔ برخلاف اس کے تعداد میں کمی اور محدود وسائل کے باوجود مقابلہ کے جذبہ نے کامیابی کو قدموں میں ڈال دیا۔ آزادی کے 75 برس مکمل ہوگئے لیکن مسلمانوں نے اپنا کوئی تعلیمی ، معاشی اور ملی ایجنڈہ نہیں بنایا۔ سیکولرازم اور مسلم دوستی کے نام پر قوم کو ہمیشہ خواب غفلت میں رکھا گیا اور مسلمان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو اپنا مسیحا تصور کرنے لگے۔ مسلمانوں کو ووٹ بینک سے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ جب کبھی الیکشن آتا ہے ، سر پر ٹوپی لگاکر السلام علیکم ، بسم اللہ ، الحمد اللہ اور ماشاء اللہ کہنے والے ڈھونگی قائدین کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے ۔ مسلمانوں نے یہ نہیں سوچا کہ صرف میٹھی باتوں سے پیٹ نہیں بھرتا ، مسلمان فطری طور پر بھولے اور جذباتی واقع ہوئے ہیں اور کسی پر بھی جلد اور آسانی سے بھروسہ کرنے لگتے ہیں۔ زوال اور پستی کے لئے قیادتوں کو مورد الزام ٹھہرانے سے زیادہ مسلمانوں کو اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔ اگر قوم جاگتی رہتی تو قیادتیں بھی بے داری کے ساتھ کام کرتیں۔ 75 سال کی بے حسی نے آج مسلمانوں کو دیش بھکت کے بجائے دیش دروہی کی صف میں کھڑا کردیا ہے ۔ صرف 8 برسوں کی حکمرانی میں سنگھ پریوار نے ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل کرتے ہوئے ملک کی آزادی کے لئے جان نچھاور کرنے والے مسلمانوں کی قربانیوں کو تاریخ سے حذف کردیا۔ جن دینی مدارس سے نکل کر علماء نے انگریزوں کو للکارا تھا ، آج ان مدارس پر دہشت گردی کے مراکز کا لیبل لگاکر بلڈوزر چلایا جارہا ہے ۔ صورتحال اس قدر ابتر ہوگئی کہ مسلمانوں کو اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کیلئے طرح طرح کے طریقے اختیار کرنے پڑ رہے ہیں تاکہ حکومت کی نظر میں وہ دیش بھکت دکھائی دیں۔ یہ سب کچھ چند برسوں کی نہیں بلکہ 75 سال سے جاری سنگھ پریوار کی ٹھوس منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ دوسرے تو ہمیں مٹانے کی ترکیبیں کرتے رہے اور ہم نے دوسروں پر تکیہ کیا اور پھر وہی ہوا کہ ’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘‘۔
آسام اور کرناٹک سنگھ پریوار کی تجرباتی فیکٹریوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ بی جے پی حکومتیں مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آسام کے چیف منسٹر حال ہی میں کانگریس سے بی جے پی میں شامل ہوئے اور بی جے پی نے انہیں چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز کردیا۔ کیا ہیمنت بسوا شرما کانگریس میں رہنے کے باوجود اندرونی طور پر سنگھ پریوار کے نظریات کے حامل تھے جس کے نتیجہ میں چیف منسٹر بنتے ہی وہ اپنی اصلیت دکھانے لگے ہیں ؟ ایک ماہ میں تین مدرسوں پر بلڈوزر چلادیا گیا اور تین دن میں دو مدرسے زمین بوس کردیئے گئے ۔ مدرسوں پر الزام ہے کہ وہاں کے بعض اساتذہ دہشت گردوں سے روابط رکھتے ہیں۔ اگر کسی پر الزام ہے کہ قانون کے مطابق کارروائی کے لئے حکومت آزاد ہے لیکن مدرسہ پر بلڈوزر چلانے کا اختیار کس نے دیا ہے۔ آج تک دینی مدارس میں دہشت گرد سرگرمیوں کا الزام ثابت نہیں کیا جاسکا کیونکہ دینی مدارس میں دہشت گردی کے بجائے اخوت اور بھائی چارہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ دستور کی دفعہ 30 کے تحت اقلیتوںکو اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔ آسام حکومت بظاہر مدارس پر دہشت گرد سرگرمیوں کا الزام عائد کر رہی ہے لیکن بلڈوزر چلانے سے قبل جو نوٹس دی گئی وہ غیر قانونی تعمیر سے متعلق ہے۔ بلڈوزر کارروائی کو درست قرار دینے کے لئے غیر قانونی تعمیر کا الزام عائد کردیا گیا ۔ دینی مدارس پر سنگھ پریوار کی بری نظریں بہت پہلے سے ہیں لیکن آج مسلمانوں میں علی میاں ، مجاہد الاسلام قاسمی اور منت اللہ رحمانی جیسے رہنما باقی نہیں رہے جنہوں نے اترپردیش حکومت کو دھمکی دی تھی کہ اگر مدارس میں سرسوتی وندنا پڑھایا گیا تو مسلمان اپنے بچوں کو نکال لیں گے ۔ اس دھمکی کا نتیجہ ہے کہ آج تک بھی سرسوتی وندنا کا آغاز نہیں ہوا ۔ آسام میں این آر سی ، این پی اے اور سی اے اے کے نفاذ کی بھی تیاریاں جاری ہیں تاکہ مسلمانوں کو غیر ملکی ثابت کرتے ہوئے ووٹ کے حق سے محروم کیا جائے۔ کرناٹک میں حجاب اور تبدیلی مذہب کے بعد اب عیدگاہوں پر بری نظریں ہیں۔ ہائی کورٹ کی اجازت سے ایک عیدگاہ میں گنیش تہوار کا آغاز ہوا جبکہ سپریم کورٹ نے دوسری عیدگاہ میں مورتی بٹھانے کی اجازت سے انکار کردیا ۔ آسام اور کرناٹک حکومت کی کارستانیاں کم نہیں ہوئیں کہ یوگی ادتیہ ناتھ نے اپنے وجود کا احساس دلایا۔ اترپردیش میں گھر میں نماز پڑھنے پر مقدمہ درج کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں ایف آئی آر واپس لے لی گئی لیکن یہ واقعہ حکمراں جماعت اور نظم و نسق کے مسلمانوں اور ان کی عبادتوں سے نفرت کا اظہار ہے۔ اگر گھروں میں عبادت جرم ہے تو پھر اکثریتی طبقہ کے ہر گھر کے خلاف ایف آئی آر درج ہوسکتا ہے ۔ تاج محل میں بھی مورتی بٹھانے کی ناکام کوشش کی جاچکی ہے۔ موجودہ حالات پر جوہر کانپوری کا یہ شعر مسلمانوں کیلئے ایک پیام کی حیثیت رکھتا ہے ؎
ارادے ہوں جواں جن کے وہی بازی پلٹتے ہیں
مخالف کے لئے ہر آدمی آندھی نہیں ہوتا