اردغان سوشل میڈیا سے نالاں، مزید پابندیاں لگانے کی تیاری

,

   

استنبول: ترکی میں حکم راں جماعت “جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی” ملک میں سماجی رابطے کی ویب سائٹوں اور دیگر ایپلی کیشنز پر مزید پابندیاں عائد کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اس اقدام کا مقصد صدر رجب طیب اردغان یا ان کے گھرانے، ان کی حکومت اور پارٹی پر کی جانے والی تنقید کے سلسلے پر روک لگانا ہے۔ اردغان کی جماعت ملک میں عدلیہ کی تعطیلات شروع ہونے سے قبل پارلیمنٹ میں ایک نیا قانونی بل پیش کرنے کی تیاری میں مصروف ہے۔ عدلیہ کی تعطیلات 21 جولائی سے شروع ہو کر یکم ستمبر تک جاری رہیں گی۔ مذکورہ قانونی بل میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور دیگر ایپلی کیشنز کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت اصول و ضوابط وضع کیے گئے ہیں۔ترکی کی بیلجی یونیورسٹی میں ’’انٹرنیٹ لاء‘‘ کے پروفیسر یامان آکدنیز کے مطابق ایردوآن کی جانب سے یہ اعلان کہ وہ سوشل میڈیا کے استعمال کی نگرانی کے لیے ایک قانون لاگو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کسی طور “حیران کن” نہیں ہے۔آکدنیز نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری حکام اپوزیشن کے وجود کو مسترد کرتے ہیں، اسی واسطے پارلیمںٹ میں اس طرح کے قانون کا منصوبہ پیش کرنا یہ سوشل میڈیا پر اپوزیشن اور ناقدین کی آواز کو خاموش کرانے کی کوشش ہے۔ترک پروفیسر نے بتایا کہ “حکومت اب تک 4 لاکھ سے زیادہ ویب سائٹس کو بلاک کر چکی ہے۔ ہزاروں افراد کو سوشل میڈیا پر پوسٹس کے نتیجے میں تحقیقات اور فوجداری تعاقب کا سامنا ہے۔ اس وقت ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیا کمپنیاں ترک عدالتوں کے مطالبے پر تمام مواد حذف نہیں کر رہی ہیں تاہم ترکی کے اندر دفاتر موجود ہونے پر وہ مقامی عدالتوں کے فیصلوں کی پابندی پر مجبور ہو جائیں گی۔دوسری جانب ایردوآن کے حلیف اور نیشنل موومنٹ پارٹی کے قائد دولت بہجلی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ترک پارلیمنٹ میں سوشل میڈیا کے مواد کو کنٹرول کرنے سے متعلق قانون کی منظوری تک وہ فیس بک اور ٹویٹر پر اپنے اکاؤنٹس کا استعمال معطل کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا درحقیقت کردار کشی اور بدنام کرنے کا پلیٹ فارم ہے ، یہ ترکی کے حال اور مستقبل کے لیے سنگین خطرہ بن رہا ہے۔ترک صدر ایردوآن نے چہارشنبہ کے روز اپنی پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا کہ مذکورہ قانون کے بل کو جلد از جلد پیش کیا جائے گا تا کہ ان پلیٹ فارمز پر کنٹرول حاصل ہو سکے۔گذشتہ ہفتے یونیورسٹی طلبہ کے لیے خطاب کے دوران یوٹیوب پر “unlike” کی بارش ہو گئی۔ اس کے نتیجے میں براہ راست نشر ہونے کے دوران کمنٹس کو فوری طور پر بند کر دیا گیا۔ اسی طرح ٹویٹر پر بھی “ہم تمہیں ووٹ نہیں دیں گے” کا عنوان ٹاپ ٹرینڈز میں شامل رہا۔دو سال قبل ترکی کے حکام نے “ویکی پیڈیا” انسائیکلوپیڈیا کو بھی ملک میں بلاک کر دیا تھا۔ اس کی وجہ مذکورہ انسائیکلوپیڈیا پر ایسے صفحات کی موجودگی تھی جن میں انقرہ پر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ تاہم رواں سال کے آغاز پر ویکی پیڈیا پر سے پابندی ہٹا لی گئی۔ترکی کے آئین میں درج قانون کے مطابق ملک کے صدر کی توہین کرنے والے شخص کو ایک سے کئی برس تک کی جیل اور اس کے علاوہ جرمانے کی ادائیگی کی سزا ہو سکتی ہے۔
انسانی حقوق کے غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ترکی کے گذشتہ تین صدور کے مقابلے میں ایردوآن کے دور میں “صدر کی توہین” کے الزام میں قصور وار ٹھہرانے کا تناسب 15 گْنا بڑھ چکا ہے۔

جرمنی میں اردغان کے مخالفین کے تعاقب کیلئے 8 ہزار جاسوس
برلن: سال 2014 سے 2015 کے درمیان جرمنی میں پناہ کے طلب گار تْرک پناہ گزینوں کی سالانہ تعداد 1800 رہی جن میں اکثریت کرْدوں کی تھی۔ بعد ازاں سال 2016 سے اس میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھنے میں آیا جب پناہ کی درخواست دینے والوں کی تعداد 5700 سے زیادہ ہو گئی۔گذشتہ برس سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں حکام کو تْرکوں کی جانب سے پناہ حاصل کرنے کی 36 ہزار سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئیں۔العربیہ ڈاٹ نیٹ سے گفتگو کرنے والے زیادہ تر پناہ گزینوں نے باور کرایا کہ تْرک پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافے کے مقابل ترکی کی انٹیلی جنس کے جرمنی میں ایجنٹوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جرمنی میں اس قت 50 لاکھ ترک مقیم ہیں۔ان افراد کے مطابق جرمنی کی سرزمین پر اس قوت ترکی کی انٹیلی جنس کے 8 ہزار سے زیادہ ایجنٹس اور سینکڑوں جاسوس موجود ہیں۔ ان کے علاوہ نامعلوم تعداد ایسے ایجنٹس کی ہے جو سفارت خانوں کے ذریعے سرگرم ہیں۔ ان کا مقصد فتح اللہ گولن اور کْردوں کے حامیوں کا پیچھا کرنا ہے”۔جرمنی میں 30 برس سے مقیم تْرک باشندے کمیل کا کہنا ہے کہ جرمن سیکورٹی حکام نے مجھے خبردار کیا کہ میں ترکی کا سفر نہ کروں جہاں میں ترک انٹیلی جنس کو مطلوب ہوں ، وہ مجھ پر جاسوسوں کے ذریعے نظر رکھتی ہے اور میری واپسی کی منتظر ہے۔
کمیل کے مطابق اس پر فتح اللہ گولن کی جماعت سے تعلق رکھنے کا الزام ہے جس کی بنیاد پر ترک انٹیلی جنس میرا تعاقب کر رہی ہے۔ کمیل نے بتایا کہ وہ جب ترکی میں تھا تو اس کے علاقے کی مسجد کے امام نے بتایا کہ وہ ترک حکام کے حکم کے مطابق مسجد میں نماز کے لیے داخل نہیں ہو سکے گا۔ اس پر کمیل کا دل نہایت رنجیدہ ہوا کہ وہ اپنے ہی ملک میں دین پر عمل پیرا نہیں ہو سکتا اور مسجد میں جمعے کی نماز ادا نہیں کر سکتا۔یورپ میں ترکی کی انٹیلی جنس کے کام کے بارے میں کتاب تحریر کرنے والے شمیت اینبوم کے اندازے کے مطابق جرمنی میں ترک ایجنٹس کی تعداد 8 ہزار سے زیادہ ہے۔ ان کے علاوہ سیکڑوں جاسوس بھی براہ راست ترک انٹیلی جنس کے زیر نگرانی کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ جرمنی کی سرزمین پر ایجنٹوں کو بھرتی کرتے ہیں۔