مولانا آزاد یونیورسٹی میں ’پنڈت ہری چند اختر‘ اُردو شاعری و صحافت کے آئینہ میں‘ سمینار۔ جناب زاہد علی خاں ، جناب کریم خاں و پروفیسر اروندا کشن کو اعزازات، گورنر کیرالا کا خطاب
حیدرآباد 31اکٹوبر (سیاست نیوز) اُردو آپسی رنجشیں دور کرنے اور بھائی چارہ بڑھانے والی زبان ہے قومی سطح پر اُردو کا فروغ ضروری ہے۔ تعلیمی اداروں میںتحقیق کے عمل کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ‘ تحقیق ترقی کے زینہ طئے کرنے میں معاون ہونے والا عمل ہوگا۔ گورنر کیرالا جناب عارف محمد خان نے مولانا آزاد قومی یونیورسٹی ‘ حیدرآباد کے اشتراک اور مجلس فخر بحرین برائے فروغ اُردو اور ائیڈیا کمیونیکشن کے تعاون سے منعقدہ دوروزہ سمینار بعنوان ’پنڈت ہری چند اختر‘ اُردو شاعری و صحافت کے آئینہ میں‘ کی اختتامی تقریب میں بحیثیت مہمانِ خصوصی خطاب کے دوران ان خیالات کا اظہار کیا۔ وائس چانسلر یونیورسٹی پروفیسر اسلم پرویز کے علاوہ شکیل احمد صبرحدی بانی مجلس فخر بحرین برائے فروغ اُردو‘ آصف اعظمی ڈائرکٹر آْئیڈیا کے علاوہ دیگرمعززین نے خطاب کیا۔ انیس اعظمی نے شکریہ ادا کیا جبکہ کارروائی آصف اعظمی نے چلائی ۔ تقریب کا آغاز قومی ترانے سے ہوا ۔ حسب روایت اس سال سمینار کے موقع پر تین اہم شخصیات ‘ ایڈیٹر روزنامہ سیاست جناب زاہد علی خان ‘ جناب کریم خان بانی اقراء سوسائٹی اور پروفیسراروند اکشن سابق وائس چانسلر مہاتما گاندھی انتر راشٹریہ ہندی یونیورسٹی کو فروغ اُردو کیلئے گرانقدر خدمات پر جناب عارف محمد خان کے ہاتھوں تہنیت اوراعزاز پیش کئے گئے ۔ جناب عارف محمد خان نے کہاکہقرآن میں انسان کو دنیا میں موجود چیزوں پر غور کرنے کا حکم ہے۔ انسان کو نہ صرف تجربہ کرنے کا حکم ہے بلکہ دوسروں کے تجربوں سے استفادہ کا حکم ہے۔ جب انسان تحقیق اور تقلید دونوں کی راہوں پر چلتا ہے تو دنیا ترقی کرتی ہے یعنی یہی ترقی کا سرچشمہ ہے۔ قرآن نے برائی کا جواب بھلائی سے دینے کا حکم دیا اور کہا کہ کوئی انسان معمولی نہیں ہوتا۔ انہوں نے ابوالکلام آزاد کا حوالہ دیا کہ جب وہ بالکل نوجوان تھے انہوں نے ایک پروگرام میں ڈپٹی نذیر احمد کے روبرو ایک بہترین تقریر کی جس پر ڈپٹی نذیر احمد نے سمجھا کہ وہ کسی سے لکھوا لائے ہیں۔ اس پر مولانا نے اگلے دن ان کے دیئے ہوئے موضوع پر بھی بہترین تقریر کی۔ حالانکہ مولانا بھی ایک انسان ہی تھے۔ اسی لیے تمام طلبہ اگر کوشش کریں تو اپنے آپ کو منواسکتے ہیں۔ انہوں نے خود کو طالب علم قرار دیا اور کہا کہ انسان کو مرتے دم تک کچھ نہ کچھ سیکھتے رہنا چاہیے۔ انہوں نے شاعری کے بارے میں مختلف انگریزی و سنسکرت اقوال پیش کئے اور بتایا کہ والمیکی نے کہا تھا کہ جب تک کرب نہ ہو شاعری نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عبدالحق نے اردو کیلئے دو لوگوں کی خدمات کو گراں قدر قرار دیا تھا، ایک غالب کی اور دوسری لتا منگیشکر کی۔ عارف محمد خان نے کہا کہ جب سے وہ کیرالا گئے وہاں پر پروگرامس میں دیکھتے ہیں کہ لوگ اردو سے عدم واقفیت کے باوجود اردو نغموں سے محظوظ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز، وائس چانسلر نے صدارتی تقریر میں کہا کہ اردو کا مقصد سبھی کو جوڑنا ہے اور ابتداہی سے اس زبان نے یہی کیا ہے۔ سمینار میں جہاں ایک بہترین شاعر پنڈت ہری چند اختر کو خراج پیش کیا گیا وہیں طلبہ کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اردو کو مختلف علوم سے جوڑنے کی بات کی اور کہا کہ شہر کے روزناموں سیاست، منصف اور اعتماد اردو میں دیگر علوم کے معیاری مضامین کے سپلیمنٹ شائع کرتے ہیں جبکہ دیگر علاقوں کے اخبارات میں یہ کم نظر آتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نفرت کا جواب بھی محبت سے دینا چاہیے۔ جناب شکیل احمد صبرحدی، بانی فخر بحرین، نے استقبالیہ خطاب میں کہا کہ فخر بحرین برائے فروغ اردو و آئیڈیا کمیونکیشنس نے چھ سال سے جامعہ ہمدرد، الہ آباد یونیورسٹی، ممبئی یونیورسٹی جیسے اداروں میں شہریار، مجروح سلطان پوری، چکبست، آنند نرائن ملا جیسی شخصیتوں پر سمینار کیے ہیں۔ جناب آصف اعظمی، ڈائرکٹر آئیڈیا کمیونکیشنس نے بتایا کہ اس طرح کے پروگرام جس علاقے میں ہوں وہاں ‘ قریبی علاقوں کی ایسی شخصیات جو اردو کیلئے، مذہبی رواداری کے فروغ کیلئے اور خدمت خلق کیلئے خدمات انجام دے رہی ہوں کی تہنیت کی جاتی ہے۔