اردو صحافت کی تاریخ میں روزنامہ سیاست کاکلیدی کردار

,

   

دہلی میں جشن اردو صحافت ،سابق نائب صدر حامدانصاری کے ہاتھوں عامر علی خاں کے توسط سے جناب زاہد علی خاں کو عبدالواحد صدیقی ایوارڈ

نئی دہلی، 30؍مارچ (سیاست نیوز) اردو صحافت کے دو سوسال میں روزنامہ سیاست کے 75سالہ خدمات ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اخبار سیاست نے اردو صحافت کے اقدار ، وقار اور معیار کو بلند رکھنے کے لئے قربانیاں دیں اور کبھی بھی حالات سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ بانی ایڈیٹر پدم شری جناب عابد علی خاںاور جناب محبوب حسین جگر نے اپنی جستجو، تڑپ، محنت، صحافت اور دیانتداری سے صرف سیاست نہیں بلکہ اردو صحافت کی بھی آبیاری کی۔ ان خیالات کا اظہار مختلف مقررین نے اردو صحافت کے دوسوسالہ جشن کے موقع پر منعقدہ عظیم کانفرنس میں کیا، جو آج چہارشنبہ 30؍مارچ کو نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل اسلامک کلچر سنٹر میں منعقد ہوئی۔ سابق نائب صدر جمہوریہ جناب محمد حامد انصاری نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی جبکہ غلام نبی آزاد، پروفیسر اخترالواسع، ڈاکٹر سید فاروق (ہمالیہ ڈرگس)، رکن پارلیمنٹ ندیم الحق، میم افضل سابق ایم پی شہ نشین پر موجود تھے۔ ممتاز صحافی معصوم مرادآبادی اس جشن کے روح رواں ہیں۔ جناب حامد انصاری نے ادارہ سیاست کی 75سالہ اور جناب زاہد علی خاں کی 55سالہ صحافتی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور اعتراف کے طور پر مولانا عبدالواحد صدیقی ایوارڈ پیش کیا جسے نیوز ایڈیٹر سیاست جناب عامر علی خاں نے حاصل کیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سابق نائب صدر محمد حامد انصاری نے کہا کہ ہر دس سال میں آبادی تو بڑھ رہی ہے لیکن اردوپڑھنے اور بولنے والوںکی آبادی کم ہورہی ہے۔ یہ بات انہوںنے اردو صحافت کا دو سو سالہ جشن میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرتے ہوئے کہی۔ اس کا اہتمام ’’اردو صحافت۔ دو سو سالہ تقریبات کمیٹی‘ ‘نے کیا۔ انہوں نے کہاکہ ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے لیکن اردو قارئین کی تعداد دن بہ دن گھٹ رہی ہے جو باعث تشویش ہے۔ انہوںنے کہاکہ جب تک اسکولوں میں اردو نہیں پڑھائی جائے، اس وقت تک اردو پڑھنے اور لکھنے والے کی تعداد میںاضافہ نہیں ہوسکتا۔ انہوںنے اسکولوںمیں اردو اساتذہ کی کمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ جب تک اسکولوں میںاردو پڑھنے والے طلبہ کی مقررہ تعداد نہیں ہوتی اردو استاذنہیں رکھے جاتے۔ جو بچے اردو پڑھنا چاہتے ہیں وہ دوسری زبان پڑھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جناب انصاری نے گھروں میں اردو پڑھانے پر زور دیتے ہوئے کہاکہ اسکولوں میں اردو کی پڑھائی نہیں ہوتی اورگھر پر نہیں پڑھائیں گے تو پھر اردو کی پڑھائی کہاں ہوگی۔ انہوںنے کہاکہ جو کام والدین کو کرنا چاہئے وہ اپنا کام نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اردو کا فروغ ان کی ذمہ داری ان کی ہے جن کی زبان ہے لہذا اردو کے تئیں ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی انہوںنے کہاکہ مطمئن رہیں کہ اردو زندہ رہے گی۔ انہوںنے کہاکہ اس وقت اردو صرف ہندوستان کی نہیں بلکہ بین الاقوامی زبان ہے۔ امریکہ، آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں اردو رسالے نکل رہے ہیں اور اردو بولی جارہی ہے۔
سابق مرکزی وزیر اور سابق وزیر اعلی جمو ں وکشمیر غلام نبی آزاد نے اردو صحافت کی تاریخ پرروشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ اردو صحافت کے آغاز کے بارے میں متضاد دعوے کئے گئے ہیں۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ پہلا شخص جسے کالاپانی بھیجا گیاتھا وہ ایک مسلم صحافی تھا۔ یہ تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ شخص کون تھا۔ انہوں نے کہاکہ 1794میں ہندوستان کا پہلا اخبار ٹیپو سلطان نے ’فوجی اخبار‘ کے نام سے نکالا تھا جو فوجیوں کیلئے تھا اور پہلا پرنٹنگ پریس بھی ٹیپو سلطان نے ہی قائم کیا تھا۔انہوں نے جنگ آزادی میںاردو صحافت اوراردو صحافیوں کی خدمات کا ذکر کرنے پر زور دیتے ہوئے کہاکہ ان کی قربانیوں پر بات چیت بہت کم ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اردو زبان آہستہ آہستہ سکڑ رہی ہے اور آج کے بچے انگریزی زبان پڑھنا زیادہ پسند کرتے ہیں کیوں کہ انہیں اس میں اپنا مستقبل نظر آتا ہے۔ سابق رکن پارلیمنٹ اورسابق سفارت کار میم افضل نے صدارت کرتے ہوئے آزادی کے بعد اردو کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ذکر کیا اور کہا کہ اردو کو مسلمانوں کی زبان بنادیا گیا ہے اور اس میں کچھ حد تک اردو والے بھی شامل ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ اردو پر اس طرح توجہ نہیںدی گئی جیسی ضرورت تھی۔ انہوں نے کہاکہ اردو دم توڑنے والی زبان نہیں ہے۔ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ اردو صحافت کے مستقبل کو زندہ رکھنا ہے تو اپنے بچوں کو اردو پڑھائیں۔ پدم شری اور مولانا آزاد یونیورسٹی کے صدر پروفیسر اختر الواسع نے کہاکہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اگر زبان کا مذہب ہوتا تو اردو کے پہلے اخبار جام جہاںنما کے کرتا دھرتا سدا سکھ لعل اور ہری دت نہیں ہوتے۔دوسرے سیشن میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے سربراہ پروفیسر شافع قدوائی نے کہاکہ آج کا میڈیاحقائق پیش نہیں کرتا بلکہ اپنے حقائق پیش کرتاہے۔ پہلے اخبارات حقائق کے ترجمان ہوتے تھے جبکہ آج دوسری طرح کے سچ بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بقول مولانا وحیدالدین خاں اردو صحافت احتجاج کی صحافت ہے۔مشہور صحافی قربان علی نے کہاکہ جب تک اردو کو روزی روٹی سے نہیں جوڑا جائے گا اس وقت تک نہ اردو صحافت کا فروغ ہوگا اور نہ ہی اردو کے اخبارات۔ اردو والے پیسے خرچ کرنے کیلئے تیار نہیںہیں۔ اخبار کے صحافیوں کی تنخواہ انتہائی کم ہے۔ممبئی سے شائع ہونے والا اخبار ہندوستان کے مدیر سرفراز آرزو نے اخبارات کی دگرگوں حالت کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اشتہارات کی کمی کی وجہ سے اخبارات کو جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے اور بقا کیلئے کئی طرح کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہناہوگا۔مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر اسلم پرویز نے کہاکہ اردو صحافت کاچیلنج یہ بھی ہے کہ جب تک ہم اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھاتے اس وقت تک اردو کابقاممکن نہیں ہے۔ روزنامہ آگ لکھنؤ کے مدیراعلی ابراہیم علوی نے اس سیشن کی صدارت کرتے ہوئے کہاکہ اردو دزبان بچانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے گھروں میں بچو ں کو اردوپڑھائیں۔ خطاب کرنے والوں میںروزنامہ ندیم بھوپال کے ایڈیٹر عارف عزیز، شاہین نظر، ڈاکٹر سید فاروق، رکن پارلیمنٹ ندیم الحق، رئیس مرزااور دیگر شامل تھے۔ اس موقع پر متعدد صحافیوں کو ایوارڈ اور مومنٹو بھی پیش کیا گیا، جن میں یو این آئی اردو کے سابق سربراہ عبدالسلام عاصم شامل ہیں۔اس موقع پرڈاکٹر مرضیہ عارف نے اپنی کتاب جہان فکر و فن کی کاپی سابق صدر جمہوریہ حامد انصاری کو پیش کی۔ پہلے سیشن کی نظامت پروگرام کے کنوینر اور مشہور صحافی معصوم مرادآبادی نے کی جب کہ دوسرے سیشن کی نظامت معروف صحافی سہیل انجم نے انجام دی۔