ہمدرد یونیورسٹی میں جشن ادب میں اکیسویں صدی کے ناولوں پرمباحثہ
حیدرآباد 10 مارچ (پریس نوٹ) اس سال جشن ادب ‘ ہمدرد یونی ورسٹی کیمپس میں منعقد ہوا جس میں رنگا رنگ ادبی، ثقافتی اور علمی تقریبات ہوئیں۔ اس دوران اردو افسانہ و ناول پر مذاکرہ بھی ہوا۔ قابل تعریف بات یہ ہے کہ اس تقریب میں پہلی بار ناول کی قرأت کا باقاعدہ اہتمام کیا گیا تھا۔ ایک اہم مذاکرہ ’ اکیسویں صدی میں اردو ناول ‘ کے عنوان سے منعقد ہوا، جس میں مشہور ناقد پروفیسر شمیم حنفی اور ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ فکشن نگار بیگ احساس نے رحمن عباس کے ساتھ نئی صدی میں اب تک لکھے گئے ناولوں پر بات چیت کی۔ شمیم حنفی نے کہا کہ ہمارے یہاں بہت اچھے فکشن لکھنے والے موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رحمن عباس کا ناول روحزن ایک عمدہ ناول ہے ،یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں اس کا چرچا ہو رہا ہے، جرمن زبان میں بھی اس کا ترجمہ ہو چکا ہے،میں سمجھتا ہوں ناول ہمارے زمانے کا فکشن ہے۔ پروفیسر بیگ احساس نے کہا کہ ہندستان کی سطح پر موجودہ صدی میں نورالحسین، حسین الحق، فیاض رفعت اور عبدالصمد کے ناول بھی اہم ہیں اوران پر مکالمہ جاری ہے۔ فیاض رفعت کا ناول ’بنارس والی گلی‘ سماجی منظرنامے کو ایک الگ انداز میں پیش کرتا ہے۔ بیگ احساس نے مزید کہا کہ رحمن عباس کا ناول ’روحزن‘ مجھے اس حوالے سے پسند ہے کہ یہ ناول ممبئی کی زندگی کا گہرا مشاہدہ پیش کرتا ہے اور فارم کی سطح پر بھی ایک نیا تجربہ ہے۔ معاصر سیاست اور سماج کے مسائل اردو ناول میں بیان کیے جا رہے ہیںجبکہ بعض افراد اب بھی تاریخ پرستی میں محو ہیں اور ماضی کی بازیافت میں کچھ اس طرح گرفتار ہیں کہ اپنے عہد کی سفاکی اور سنگلاخی سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ رحمن عباس نے مذاکرے کی ابتدا کرتے ہوئے کہاکہ اس عنوان کے تحت ہم ان ناولوں پر فوکس کر رہے ہیں، جو گذشتہ اٹھارہ برسوں میں لکھے گئے ہیں، ورنہ ناول کا کینوس بہت وسیع ہو جائے گا۔ مذاکرے سے قبل رحمن عباس سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر شمیم حنفی نے کہا کہ انھوں نے’ روحزن‘ کا مطالعہ ٹھہر ٹھہر کر کیا ہے،انہوں نے ناول پر اپنا مختصر مگرمعنی خیز تاثر پیش کرتے ہوئے کہاکہ: There is density in this novel یعنی اس ناول کے متن میں گھنا پن ہے۔ ہمدرد یونی وررسٹی کیمپس میں منعقدہ جشن ادب کے آٹھویں پوئٹری فیسٹیول میں پروفیسر بیگ احساس کو بہترین فکشن نگار کا ’’جشن ادب ایوارڈ‘‘بھی دیاگیا۔