ارم منزل کے انہدام کا فیصلہ ہائی کورٹ میں کالعدم

   

ہیرٹیج عمارت کا تحفظ کیا جائے، نواب فخرالملک کے قانونی وارثین کا اظہار مسرت

حیدرآباد۔ 16 ۔ ستمبر (سیاست نیوز) تلنگانہ ہائی کورٹ میں آج ریاستی حکومت کو اس وقت دھکہ لگا جب عدالت نے نئی اسمبلی کی عمارت کی تائید کے لئے ارم منزل کے انہدام کے فیصلہ کو کالعدم کردیا۔ عدالت نے ارم منزل کی تاریخی عمارت کو منہدم کرتے ہوئے اس کی جگہ نئی اسمبلی کی عمارت کی تعمیر سے متعلق تلنگانہ کابینہ کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے آج احکامات جاری کئے ۔ ہریٹیج عمارت کے تحفظ کے لئے نواب فخرالملک لیگل ہیرس اسوسی ایشن نے ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی درخواست دائر کی تھی۔ عدالت نے کابینہ میں منظور کی گئی قرارداد کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ریمارک کیا کہ کابینہ کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں ہے۔ عدالت نے واضح کردیا کہ ارم منزل کی عمارت کو ہرگز منہدم نہ کیا جائے ۔ اسی دوران نواب فخرالملک لیگل ہیرس اسوسی ایشن کے سکریٹری نواب شفاعت علی خاں نے عدالت کے فیصلہ کو حیدرآبادی عوام کی کامیابی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ تاریخی اور تہذیبی ورثہ کے تحفظ کے سلسلہ میں ہائی کورٹ نے غیر معمولی فیصلہ دیا ہے۔ شفاعت علی خاں کے علاوہ اسوسی ایشن کے صدر نواب سید علی شہریار، نائب صدر نواب نوری مظفر حسین ، اسسٹنٹ سکریٹری نواب ایس این محسن نقوی ، خازن نواب میر رضا حسین ، ارکان عاملہ نواب علی محسن خاں اور نواب علی حسین خاں نے بھی عدالت کے فیصلہ کا خیرمقدم کیا۔ نواب شفاعت علی خاں نے بتایا کہ نواب فخرالملک ان کے پڑدادا ہیں اور حکومت کو عمارت کے تحفظ کی شرط پر ارم منزل حوالہ کیا گیا تھا ۔ چیف منسٹر نے اس تاریخی اور ہیرٹیج عمارت کو منہدم کرنے کا فیصلہ کیا جس کے خلاف حکومت سے نمائندگی کی گئی لیکن کے سی آر حکومت کے رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ انہوں نے کہا کہ ارم منزل حیدرآباد کی عزت اور ناک ہے۔ انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ ارم منزل کی عظمت رفتہ بحال کرتے ہوئے اسے دہلی کی حیدرآباد ہاؤز کی طرح بیرونی مہمانوں کے استقبال کے لئے استعمال کریں۔ حکومت کی جانب سے انکار کے بعد اسوسی ایشن نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ انہوں نے کہا کہ 1917ء کے نئے ہیرٹیج قانون میں ارم منزل کو ہیرٹیج کی فہرست سے نکال دیا گیا جبکہ ایک بار ہیرٹیج میں شامل عمارت کو خارج نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی منہدم کیا جاسکتا ہے ۔ نواب شفاعت علی خاں نے کہا کہ موجودہ اسمبلی کی عمارت 120 ارکان اسمبلی کیلئے کافی ہے جبکہ اسی عمارت میں متحدہ آندھراپردیش کے 294 ارکان اسمبلی کا انتظام تھا۔