اروند کجریوال، شرم تم کو کیوں نہیں آتی!

   

ظفر آغا

اروند کجریوال میدان سیاست کے بونے ہیں، یہ بات تو اسی وقت طے ہو گئی تھی جب وہ دہلی اسمبلی چناؤ ختم ہوتے ہی نریندر مودی اور امیت شاہ جیسے فرقہ پرستوں کی گود میں جا بیٹھے۔ اصولوں کے ڈھکوسلوں میں لپٹے اروند کجریوال نے مودی سے ہاتھ ملا کر نہ صرف اپنے ووٹروں کو ناامید کیا بلکہ اسی کے ساتھ انھوں نے ملک بھر میں جو صاف ستھری سیاست کی ایک امید کی کرن جگائی تھی، وہ امید بھی ٹوٹ گئی۔ ایک وہ وقت تھا کہ جب کجریوال ملک کو تیسرا سیاسی نعم البدل دینے کی بات کر رہے تھے۔ اب وہی کجریوال گردن جھکائے ایک بونے کی مانند امیت شاہ کے پیچھے پیچھے چلتے نظر آتے ہیں۔ اصولوں سے سمجھوتہ کسی کو بھی گردن اٹھانے کا موقع نہیں فراہم کرتا ہے۔ اسی لیے اروند کجریوال کی گردن اب شاید کبھی نہ اٹھ سکے۔ خیر، آج کی سیاست میں گردن جھکنا اور ناک کٹنا ایک عام بات ہے۔ بے حیائی کی گرد سے ڈھکے آج کے نیتاؤں کو گردن جھکنے کا کوئی اثر بھی نہیں ہوتا ہے۔ بس یوں سمجھیے کہ اروند کجریوال بھی اسی موٹی کھال کے قبیلے والے نیتا نکلے۔

لیکن اس سے بھی زیادہ حیرت ناک بات یہ ہے کہ کجریوال ایک انتہائی ناکام و نکمے وزیر اعلیٰ ثابت ہوئے۔ دہلی میں اس وقت کورونا وائرس سے بدحالی کا جو عالم ہے وہ کم از کم اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ کجریوال انتظامیہ اس مہاماری سے نمٹنے میں پوری طرح ناکام ہی نہیں بلکہ اس کے لیے ابھی تک تیار بھی نہیں ہے۔ ذرا غور فرمائیے کہ ہم یا آپ اگر دہلی میں اس وبا کا شکار ہو جائیں تو کسی اسپتال میں ہم کو ایک بیڈ مل جائے، اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ میرے ایک ملاقاتی کے ساتھ یہی ہوا۔ وہ بیچارے چار یا پانچ اسپتالوں کا دروازہ کھٹکھٹا آئے لیکن کہیں داخلہ نہیں ملا۔ آخر وہ ایک سرکاری اسپتال پہنچے۔ بھرتی تو ہو گئے لیکن دیر اتنی ہو چکی تھی کہ دو گھنٹوں میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ جناب یہ اس وقت ملک کے دارالحکومت دہلی کی عام کہانی ہے۔ درجنوں کی تعداد میں لوگ یہاں بغیر کسی علاج کے مر رہے ہیں۔ اسپتالوں میں بدنظمی کا یہ عالم ہے کہ جو جائے اور بچ کر آ جائے تو بڑا خوش قسمت جانیے۔ اور تو اور، اسپتالوں میں لاشیں زمینوں پر پڑی ہیں۔ مردہ گھروں میں جگہ ختم ہو چکی ہے، شمشان گھاٹ اور قبرستان لاشوں سے پٹے پڑے ہیں۔
جی ہاں، یہ کجریوال کی اسی دہلی کا عالم ہے جس کو وہ نیو یارک بنانے کا خواب دکھایا کرتے تھے۔ لیکن اس وقت اس وبا کو لے کر دہلی میں جو بدنظمی پھیلی ہے اس کا سبب کیا ہے! سیدھا سا جواب یہ ہے کہ منتری سے لے کر سنتری تک اس شہر میں کسی کو یہ فکر ہی نہیں تھی کہ آخر اس وبا سے نمٹا کیسے جائے گا۔ ڈاکٹروں نے مارچ کے شروع میں ہی یہ اعلان کر دیا تھا کہ جون-جولائی آتے آتے دہلی میں مریضوں کی تعداد کئی لاکھ پہنچ جائے گی۔ آخر جون آدھا بھی نہیں گزرا تھا کہ روز کئی ہزار کی تعداد میں کورونا کے مریض اسپتال میں داخل ہونے کی دوڑ لگانے لگے۔ ظاہر ہے کہ نہ تو اسپتالوں میں جگہ ہے اور نہ ہی ہر کسی کا علاج ہو پا رہا ہے۔ درجنوں روزانہ مر رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ دہلی میں اب کورونا مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ بدنامی سے بچنے کے لیے پہلے تو کجریوال حکومت نے پہلے اس مرض سے متعلق اعداد و شمار پر جھوٹ بولا۔ آخر نوبت یہ آئی کہ جھوٹ کی کوئی گنجائش ہی نہیں بچی۔ اب یہ عالم ہے کہ نہ تو اسپتالوں میں جگہ ہے اور نہ ہی شمشان گھاٹ اور قبرستان خالی ہیں۔ بس یوں سمجھیے ‘میر کا عالم میں انتخاب’ شہر دہلی کجریوال کا ‘بھگوان بھروسے دہلی’ ہو چکا ہے۔
اب جب حالات اس قدر بگڑ گئے تو مرکزی حکومت کو ہوش آیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے معتمد خاص امیت شاہ کو بلا کر حکم دیا کہ بھائی ذرا کچھ کیجیے۔ انھوں نے پہلے کجریوال کو بلا کر پھٹکار لگائی۔ پھر موصوف نے اعلان کیا کہ پانچ سو ریل ڈبے اور تمام دہلی کے اسٹیڈیم کو اسپتالوں میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ چلیے، بیڈ تو شاید اب مریضوں کو مل جائیں، لیکن بتائیے راتوں رات سینکڑوں ڈاکٹر، نرسیں، دوسرا عملہ اور آئی سی یو کے ساتھ ساتھ وینٹی لیٹرس کا انتظام کہاں سے ہوگا! ظاہر ہے کہ دہلی ساری دنیا میں پھیلی کورونا وبا کا جلد ہی ’کورونا کیپٹل‘ بن جائے گا اور کجریوال صاحب اپنی تصویر کے ساتھ اخباروں میں بذریعہ اشتہار اپنی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہوں گے جو ان کا شیوہ ہے۔ یہ بے شرمی نہیں تو اور کیا ہے۔

دراصل پچھلے پانچ سالوں میں کجریوال نے اپنی کامیابی کا جو ڈھکوسلا کر رکھا تھا، اب اس کی پول پٹی کھلنی شروع ہو چکی ہے اور ایک نکما کجریوال لوگوں کو نظر آنے لگا ہے۔ پہلے تو انہی کجریوال نے دہلی میں نہیں سارے ملک کو بدعنوانی ختم کرنے کا جھانسا دیا۔ پتہ نہیں ہمارے مڈل کلاس کو کیوں ہر اس لیڈر سے پیار ہو جاتا ہے جو ذرا سا بھی بدعنوانی ختم کرنے کا خواب دکھا دے۔ سنہ 1980 کی دہائی میں وی پی سنگھ نے یہی کیا اور وزیر اعظم بن بیٹھے۔ سنہ 2012 میں انا ہزارے اور کجریوال نے یہی جھانسہ دیا اور کجریوال نے دہلی پر قبضہ جما لیا۔ ارے د ہلی میں یا کہیں بھی کیا بدحالی ختم ہوئی! خود دہلی میں بدعنوانی کا یہ عالم ہے کہ ایک آٹو رکشہ والا میٹر سے چلنے کو راضی نہیں اور پھر بھی وہ کجریوال کی آنکھوں کے تارے بنے گھوم رہے ہیں۔ یہ بدعنوانی نہیں تو اور کیا ہے۔ اندر کجریوال انتظامیہ کا کیا حال ہے یہ بھی پتہ چل ہی جائے گا۔ بس یوں سمجھیے کہ بدعنوانی کا پرچم بلند کر کجریوال اقتدار حاصل کر بیٹھے اور اب عوام بدحال ہیں اور کجریوال مزے لوٹ رہے ہیں۔ یعنی کجریوال کی شروعات ہی ایک دھوکہ تھا۔

بات تو یہ ہے کہ کجریوال شروع سے آخر تک ایک دھوکہ ہیں۔ ابھی چھ ماہ قبل دہلی اسمبلی چناؤ کے درمیان دہلی میں ‘محلہ کلینک’ کا ایک شور تھا۔ ارے صاحب مانو ‘محلہ کلینک’ جیسے ساری دنیا میں نظام صحت میں ایک انقلاب کی نشانی بن گئی ہو۔ لگتا تھا دہلی میں ڈاکٹر گھر گھر جا کر ہر مریض کا علاج کر دیں گے۔ آج جب دہلی میں کورونا وائرس وبا نے کہرام مچا رکھا ہے تو وہی محلہ کلینک کہیں نظر ہی نہیں آ رہی ہیں۔ قاعدے سے اس وقت ان محلہ کلینک کو کورونا مریضوں کی مدد کی پہلی سیڑھی کا کام کرنا چاہیے تھا۔ گھر گھر اس کے ذریعہ کم از کم ٹیسٹنگ تو ہو سکتی تھی۔ مگر وہاں کچھ ہو تو کچھ نظر آئے۔ یعنی محلہ کلینک کے نام پر جو سینکڑوں کروڑ روپے خرچ ہوئے اور اس کا جو ڈھونگ ہوا وہ سب کا سب کھا پی کر اڑا دیا گیا۔ اس بات کی باقاعدہ انکوائری ہو تاکہ کجریوال کی گردن پکڑی جائے۔ لیکن کس کو فکر!

بدنظمی کا عالم تو یہ ہے کہ دہلی میں اس وقت کورونا وائرس کے شکار مریضوں کی تعداد پچاس ہزار ہو چکی ہے۔ اسپتالوں میں داخلہ ممکن نہیں۔ شہر میں روز درجنوں مریض مر رہے ہیں۔ آگے کیا انجام ہو اللہ جانے! جب ابھی سے اسپتالوں کے مردہ خانوں، شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں میں جگہ نہیں بچی تو جولائی آتے آتے دہلی کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ ابھی سے نہیں لگایا جا سکتا۔ کیا اس نکمے پن کے لیے کجریوال کو استعفیٰ نہیں دینا چاہیے! کوئی بھی حساس شخص ہوتا تو وہ اب تک کب کا استعفیٰ دے چکا ہوتا۔ لیکن بھائی کجریوال جیسے بے حیاؤں کو شرم کہاں!