جاوید ایم انصاری
سال 2024 ء کے عام انتخابات اور انتخابی جنگ میں فی الوقت کون بنے گا پی ایم موضوع بحث نہیں ہے بلکہ بحث و مباحث کون بنے گا چیلنجر جیسے موضوع کو لے کر ہورہے ہیں اور اس کی وجہ بھی آپ جانتے ہیں کہ اپوزیشن میں اس عہدہ کے کئی دعویدار ہیں۔ ان دعویداروں میں اب ایک نئے دعویدار کا اضافہ ہوا ہے اور وہ دہلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال ہیں اور اُنھوں نے خود کو وزیراعظم نریندر مودی کے لئے اصل چیلنجر کے طور پر پیش کرنے کے لئے ’’میک انڈیا نمبر ون‘‘ (ہندوستان کو نمبر ون بنایئے) جیسی مہم کے آغاز کو استعمال کیا ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران اُنھوں نے جو تقاریر کیں اس سے ان کے عزائم و ارادوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف چیف منسٹر بہار نتیش کمار نے بھی اس بات کے اشارے دیئے ہیں کہ وہ بھی 2024 ء کے عام انتخابات میں مودی کے لئے ایک چیلنجر کے طور پر اُبھر سکتے ہیں۔ اس طرح چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی بھی عہدہ وزارت عظمیٰ کی امیدوار بننے کی خواہش رکھتی ہیں جبکہ ہمارے ملک کی قدیم ترین پارٹی کانگریس بھی یہی چاہے گی کہ وہ عہدہ وزارت عظمیٰ کے لئے مودی کے مقابل راہول گاندھی کو میدان میں اُتارے۔ جہاں تک اروند کجریوال کا سوال ہے وہ ایک طرح سے وزیراعظم نریندر مودی کو چیلنج کرنے اپنی کوششوں کا آغاز کرچکے ہیں اور وہ ملک گیر دورے کی تیاری کررہے ہیں تاکہ ملک بھر میں اپنی پارٹی عام آدمی پارٹی کو وسعت دے سکیں۔ اگر عام آدمی پارٹی کے مظاہرہ کا جائزہ لیا جائے تو دہلی اور پنجاب میں تو اس نے اپنی حکومتیں بنالی ہیں۔ ہماچل پردیش، گجرات، ہریانہ اور گوا میں بھی اس کا مظاہرہ بہت اچھا رہا اور اس بنیاد پر وہ ملک کی دیگر ریاستوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں مصروف ہے۔ اس کے لئے خصوصی حکمت عملی اور منصوبہ بندی بھی کی ہے۔ عام آدمی پارٹی دراصل اپنی مقبول ترین اسکیمات کے ذریعہ عوام کو متاثر کرتی جارہی ہے۔ عام آدمی پارٹی میں یہ احساس پیدا ہوگیا ہے کہ قومی سطح پر بی جے پی کے مقابل وہ کانگریس کا متبادل ثابت ہوگی۔ اس کے لئے عام آدمی پارٹی کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ دہلی کی طرح دوسری ریاستوں کے عوام کے لئے بھی فائدہ بخش اسکیمات فراہم کرے۔ ویسے بھی عام آدمی پارٹی کی انتخابی حکمت عملی غیرمعمولی ہوتی ہے اور اس کے قائدین و کارکن تنظیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پرشانت کشور جو ملک کے سرفہرست سیاسی حکمت ساز ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کو چیلنج کرنے کے لئے کسی بھی سیاسی لیڈر یا سیاسی جماعت میں تین خوبیوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔اسے ایک بہترین پیغام رساں ہونا چاہئے، اس کا پیام بالکل واضح ہو اور جو وہ وعدہ کررہا ہے ان پر کیسے عمل آوری کی جائے اس کے لئے ایک خاص ماڈل رکھتا ہو۔ عام آدمی پارٹی اور اس کے سیاسی تنظیمیں اس خیال کے حامی ہیں کہ دہلی چیف منسٹر اروند کجریوال میں یہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں اور وہ 2024 ء کے عام انتخابات میں نریندر مودی کے لئے چیلنجر بن سکتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کا جو گیم پلان ہے وہ تین پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ اروند کجریوال کی شخصیت ہے، چیف منسٹر دہلی پاک صاف امیج رکھتے ہیں، ان کا سیاسی کیرئیر اب تک بالکل بے داغ رہا۔ ان کے خلاف بدعنوانی یا رشوت ستانی کے کوئی الزامات نہیں اور موروثی سیاست سے بھی وہ دور ہیں۔ دوسرا اہم پہلو ان کی حکومت کا ریکارڈ ہے۔ ان کی حکومت نے عوام سے جو وعدے کئے ان وعدوں کو وفا کیا اور اس معاملہ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ دہلی میں ایک مقبول عام حکومت چلارہے ہیں۔ خاص طور پر مفت برقی اور پانی کی سربراہی نے انھیں اور ان کی حکومت کو عوام میں مقبولیت دلائی ہے۔ ان کی قیادت میں عام آدمی پارٹی کی حکومت نے دہلی میں تعلیم و صحت کے شعبہ میں جو کچھ کیا وہ بھی قابل تعریف ہے۔ سرکاری اسکولس کے معیار کو غیرمعمولی انفراسٹرکچر کے ذریعہ بہت بلند کردیا۔ انھوں نے عوام سے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ اگر ان کی پارٹی کو مرکز میں حکومت کا موقع دیا جائے تو وہ دہلی میں جن اسکیمات اور منصوبوں پر عمل آوری کررہے ہیں وہ سارے ملک میں لاگو کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے اپنی فلاحی اسکیمات کے ذریعہ وزیراعظم نریندر مودی کو پریشان کردیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ بی جے پی قائدین دہلی حکومت کی جانب سے شروع کردہ فلاحی و بہبودی اسکیمات پر شدید تنقید کرنے لگے ہیں۔ انھیں ریوڑی کہا جارہا ہے۔ بی جے پی قائدین کے مطابق اروند کجریوال عوام میں ریوڑیاں بانٹ رہے ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ اب یہ پوری طرح واضح ہوچکا ہے کہ ملک میں فی الوقت کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جو اپنے بل بوتے پر بی جے پی کو شکست سے دوچار کرے۔ ہاں اپوزیشن کے لئے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ 2024 ء میں متحدہ طور پر ایسے شخص کا انتخاب کرے جسے مودی کے مقابل میدان میں اُتارا جاسکتا ہے اور یہ امیدوار تمام اپوزیشن قائدین کے لئے قابل قبول ہو۔ عام آدمی پارٹی کے لیڈروں کا خیال ہے کہ ممتا بنرجی کی ٹی ایم سی اور کانگریس میں اس مسئلہ پر اتفاق رائے پیدا نہیں ہوگا۔ نتیش کمار بھی مودی کے خلاف وزارت عظمیٰ کے ایک موزوں امیدوار ثابت نہیں ہوں گے۔ ایسے میں اروند کجریوال کو دوسروں پر برتری حاصل ہوتی ہے کیوں کہ اروند کجریوال نے ہندوتوا جیسے مسائل پر بہت ہی احتیاط سے موقف اختیار کیا ہے جس سے ان کے خلاف کچھ کہنے کا بی جے پی کو زیادہ موقع نہیں ملے گا۔ اس کے برعکس ممتا بنرجی پوری شدت کے ساتھ ہندوتوا کی مخالفت کررہی ہیں۔ اروند کجریوال کا جہاں تک تعلق ہے وہ دائیں بازو کے رائے دہندوں کے تئیں بڑی احتیاط سے رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ انھیں کسی بھی طرح ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ ہندوتوا کے مسئلہ پر وہ نرم رویہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے ہندوتوا طاقتوں سے راست ٹکراؤ کے بجائے ایک خصوصی پالیسی اپنائی ہے۔ ان کی حکمت یہ ہے کہ خود کو وزیراعظم نریندر مودی کا متبادل بنائیں جو دائیں بازو کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اروند کجریوال نے بی جے پی اور کانگریس دونوں قومی جماعتوں کے بارے میں بیانات جاری کرنے کے معاملہ میں بھی احتیاطی رویہ اختیار کیا ہے۔ مثال کے طور پر وزیراعظم نریندر مودی نے جشن یوم آزادی کی اپنی تقریر میں اقربا پروری اور رشوت ستانی کے مسئلہ پر کانگریس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ اروند کجریوال نے کسی کو بُرا بھلا کہنے کی بجائے ’’دوست واد‘‘ کہتے ہوئے اپنے مخالفین کو پریشان کردیا۔ ان کا اشارہ دراصل حکمراں بی جے پی کے دوست صنعت کاروں کی طرف تھا۔