ہر سال نئے تقرر پر ناراضگی، خدمات کو مستقل کرنے کی تجویز
حیدرآباد۔16 ۔جولائی (سیاست نیوز) تلنگانہ ہائی کورٹ نے سرکاری اقامتی اسکولوں اور کالجس کے اساتذہ کے ساتھ حکومت کے رویہ پر برہمی کا اظہار کیا۔ ہر سال خدمات سے برطرفی اور دوبارہ تقررات کی پالیسی پر عدالت نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اسے غیر انسانی سلوک سے تعبیر کیا ۔ چیف جسٹس ہیما کوہلی اور جسٹس وجئے سین ریڈی پر مشتمل ڈیویژن بنچ نے کہا کہ جب ٹیچرس کی خدمات مستقل ہیں تو پھر انہیں مستقل طور پر کیوں نہیں رکھا جائے۔ عدالت نے کہا کہ انہیں ریگولر جابس فراہم کرنے کے بجائے ان کے کیریئر سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ ڈیویژن بنچ پر حکومت کی جانب سے اپیل دائر کی گئی جس میں سنگل جج کے احکامات کو چیلنج کیا گیا۔ ہائی کورٹ کے سنگل جج نے اقامتی اسکولوں اور کالجس کے ٹیچرس کی خدمات باقاعدہ بنانے کی ہدایت دی تھی۔ عدالت نے سوال کیا کہ ہر سال نئے تقررات کے نتیجہ میں مستقبل میں ٹیچرس اور لکچررس کے تقررات کے موقع پر انہیں کس طرح ترجیح حاصل ہوگی۔ سنگل جج نے 116 ٹیچرس کی درخواستوں پر فیصلہ سنایا تھا جو پوسٹ گریجویٹ ٹیچرس ، ٹرینڈ گریجویٹ ٹیچرس ، فزیکل ایجوکیشن ٹیچرس اور اسٹاف نرسس کے عہدوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ گزشتہ 16 برسوں سے یہ اساتذہ خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن حکام کی جانب سے انہیں ہر سال نئے تقررات کی طرح احکامات جاری کئے جاتے ہیں۔ ہر سال انہیں دو ماہ خدمات سے علحدہ رکھا جاتا ہے اور اسی عہدہ پر 10 ماہ کیلئے تقرر کیا جاتا ہے ۔ عدالت نے حکومت کے دلائل کو مسترد کردیا۔