اسد اویسی کیا حقیقت میں بی جے پی کی مدد کررہے ہیں ؟

   

صدر مجلس پر ووٹ کٹنگ مشن ہونے کے الزامات میں کہاں تک ہے سچائی ؟
مہاراشٹرا میں پرکاش امبیڈکر کے پوتے سے اتحاد پر
کانگریس پریشان ، فرقہ پرست خوش
وفاقی محاذ کی حمایت میں آگے رہنے پر بھی شکوک و شبہات
نئی دہلی ۔ 28 ۔ جنوری : ( سیاست ڈاٹ کام ) : حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی پر اکثر فرقہ پرستوں بالخصوص بی جے پی کے ساتھ خفیہ معاملت کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں ۔ اس سلسلہ میں ان کے مخالفین خاص کر کانگریسی قائدین مہاراشٹرا ، اترپردیش اور بہار اسمبلی انتخابات کی مثالیں پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسد اویسی نے اپنی پارٹی کے امیدواروں کو ان ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں اتار کر سیکولر جماعتوں کو نقصان اور وزیراعظم نریندر مودی و امیت شاہ کی بی جے پی کو فائدہ پہنچایا ہے ۔ اسد اویسی پر یہ بھی الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ انہوں نے آر ایس ایس کی سیاسی ونگ بی جے پی اور وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے کانگریس سے مکت ( کانگریس سے پاک ) ہندوستان کے نعرہ کو کامیاب بنانے میں وقفہ وقفہ سے سنگھ پریوار کی مدد کی ہے اور ٹی وی مباحثوں میں بی جے پی یا سنگھ پریوار کے خلاف وہ جو بولتے ہیں وہ صرف دکھاوا ہے ۔ اصلیت کچھ اور ہے ۔ اس کے علاوہ اسد الدین اویسی پر یہ بھی الزام عائد کئے جاتے ہیں کہ انہیں سنگھ پریوار کے اشاروں پر ہی مودی اور بی جے پی حامی میڈیا نے زیادہ اہمیت دی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے شہر حیدرآباد کے مقامی میڈیا کو ہمیشہ نظر انداز کردیا ہے ۔ ان کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ اپنے پارٹی کے غریب کارکنوں اور حیدرآباد کے صحافیوں کو منہ نہیں لگاتے ۔ انہیں اہمیت نہیں دیتے جب کہ صحافی ان کے اِس طرز عمل یا روش کو متکبرانہ روش قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسد اویسی کے والدمرحوم سلطان صلاح الدین اویسی میں یہ ’ خوبیاں یاخامیاں ‘ نہیں پائی جاتی تھیں ۔ تاہم اسد اویسی نے ان پر عائد مذکورہ الزامات کی ہمیشہ سختی سے نہ صرف تردید کی ہیکہ بلکہ فرقہ پرستوں بشمول بی جے پی کے مستحکم ہونے کے لیے کانگریس کو ذمہ دار قرار دیا ہے ۔ اسد اویسی نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ اگر ان کی پارٹی اپنی سرگرمیوں کو وسعت دیتی ہے ۔ انتخابات میں حصہ لیتی ہے تو اس میں کیا برائی ہے ۔ جمہوریت ہے اور جمہوریت میں سب کو انتخابات میں حصہ لینے کسی کے ساتھ بھی اتحاد کرنے اور انتخابی مہم چلانے کا حق حاصل ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران اسد اویسی کی انتخابی سرگرمیوں پر کافی نکتہ چینی کی گئی اور ان کی سرگرمیوں کے باعث مجلس کو ووٹ کٹوا پارٹی کا نام بھی دیا گیا ۔ واضح رہے کہ بہار ، اترپردیش اور مہاراشٹرا کے اسمبلی انتخابات کے دوران مجلس کو ووٹ کٹوا ( ووٹ تقسیم کرنے والی ) پارٹی کا نام دیا گیا ۔ بہار اسمبلی انتخابات میں 243 رکنی اسمبلی کے لیے اسد اویسی نے صرف 6 نشستوں پر اپنے امیدوار میدان میں اتارے تھے جن میں سے ایک بھی کامیاب نہ ہوسکا حالانکہ یہ امید تھی کہ بہار میں مجلس اپنا کھاتہ کھولے گی ۔ اس کے اہم امیدوار اختر الایمان کو مجاہد عالم نے شکست سے دوچار کیا تھا ۔ مجلس کو امید تھی کہ بہار میں وہ خاطر خواہ مظاہرہ کرے گی کیوں کہ کشن گنج میں 67 فیصد ، پورنیا میں 37 فیصد کاٹیہار میں 43 فیصد ، آراریہ میں 40 فیصد مسلمان پائے جاتے ہیں ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں اور مبصرین کے خیال میں بہار میں عوام کا موڈ پوری طرح بی جے پی کو شکست سے دوچار کرنا تھا ۔ اس لیے عوام نے مہاگٹھ بندھن کو کامیابی دلائی ہے ۔ لیکن ستیش کمار نے مہا کٹھ بندھن سے بے وفائی کرتے ہوئے بی جے پی نے ہاتھ ملا کر مہا گٹھ بندھن کی حکومت ختم کردی اور اب وہ بہار میں اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں ۔ مجلس نے جب مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا اس وقت بھی اسد اویسی پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انہیں بی جے پی استعمال کررہی ہے اور بی جے پی کی قیادت کی ایماء پر ہی انہوں نے 24 حلقوں میں اپنے امیدواروں کو مقابلہ کروایا ۔ اگرچہ ایم آئی ایم کے 2 امیدوار کامیاب ہوئے لیکن سیاسی مخالفین کے مطابق ان اسمبلی انتخابات میں حصہ لے کر اسد اویسی نے ہندو ووٹوں کو بی جے پی اور شیوسینا کے حق میں کردیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کانگریس ۔ این سی پی حکومت اقتدار سے بیدخل ہوگئی اور فرقہ پرستی کے لیے بدنام بی جے پی ۔ شیوسینا اتحاد کو اقتدار مل گیا ۔ جس کے بعد وہاں ذبیحہ گاؤ پر پابندی عائد کردی گئی ۔ مسلمانوں کو کانگریس حکومت کی جانب سے فراہم کردہ تحفظات دینے کی بجائے مرہٹوں کو تحفظات دینے کا اسمبلی میں بل منظور کیا گیا ۔ 2014 میں ایم آئی ایم نے 24 نشستوں پر مقابلہ کرتے ہوئے 2 پر کامیابی حاصل کی تھی ۔ 9 حلقوں میں اسے دوسرا مقام حاصل ہوا تھا ۔ اب پھر پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر اسد اویسی نے جئے بھیم جئے میم کا نعرہ لگاتے ہوئے بابائے دستور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے پوتے پرکاش امبیڈکر کی بہوجن ریپبلکن پارٹی ۔ بہوجن مہا سنگھ کے ساتھ اتحاد کیا ۔ دونوں قائدین نے اپنے جلسے بھی شروع کردئیے ہیں اور ان مشترکہ جلسوں میں عوام کی کثیر تعداد شریک ہورہی ہے ۔ اس اتحاد سے کانگریس کافی پریشان ہے ۔ اسے خوف ہے کہ اسد اویسی اور پرکاش امبیڈکر کا یہ اتحاد سیکولر ووٹوں کو تقسیم کر کے بی جے پی ۔ شیوسینا کو فائدہ پہنچائے گا ۔ کانگریس قائدین نے تو یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ اسد اویسی اور مجلس ، بی جے پی کی B ٹیم ہے اور وہ مسلم و سیکولر ووٹوں کی تقسیم کے ذریعہ بی جے پی کو فائدہ پہنچا رہے ہیں اور وہ بی جے پی کے اشاروں پر رقص کررہے ہیں ۔ آپ کو بتادیں کہ مہاراشٹرا میں 17 فیصد ایس سی اور 13 فیصد مسلمان ہیں ۔ اورنگ آباد ، بیڑ ، ناندیڑ اور عثمان آباد میں مسلمانوں کی کثیر آبادی ہے جب کہ پربھنی ، لاتور ، جالنہ اور ہنگولی میں بھی مسلمانوں کی تعداد قابل لحاظ ہے پارلیمانی نشستوں کے لحاظ سے اترپردیش کے بعد مہاراشٹرا دوسری بڑی ریاست ہے جہاں لوک سبھا کی 48 نشستیں ہیں ۔ 2014 میں کانگریس کو صرف 2 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ واضح رہے کہ کانگریسی قائدین اور کئی مسلم تنظیمیں بھی اسد اویسی اور مجلس پر بی جے پی کو مستحکم اور سیکولر طاقتوں کو مضبوط بنانے کے الزامات مسلسل عائد کررہی ہیں ۔ جو مہاراشٹرا نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے دسمبر 2018 میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ مودی حکومت اسد اویسی کی مدد سے رام مندر مسئلہ پر فسادات برپا کروانے کا منصوبہ بنا رہی ہے ۔ انہوں نے یہ سنسنی خیز الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ مرکز رام مندر مسئلہ پر ایم آئی ایم کی مدد سے فسادات کرواسکتی ہے ۔ دوسری طرف ایم آئی ایم کے اترپردیش میں بھی حصہ لینے پر یہی کہا گیا تھا کہ وہ بی جے پی کو فائدہ پہنچا رہی ہے ۔ مبصرین کے خیال میں اسد اویسی دراصل ووٹ کٹنگ مشین ہے جو سیکولر ووٹ کاٹ کر فرقہ پرستوں کو فائدہ پہنچاتی ہے یہ تو الزامات ہیں حقیقت کیا ہے یہ تو اسد اویسی ہی بہتر جانتے ہیں ۔۔