اسرائیلی خاتون فوجی پر فلسطینی قیدی کیساتھ جنسی تعلقات کا الزام

   

تل ابیب : اسرائیل کا کہنا ہے کہ خواتین فوجیوں کو ہائی سکیوریٹی جیلوں میں تعینات نہیں کیا جائے۔ اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ خاتون فوجی نے فلسطینی قیدی کے ساتھ جسمانی تعلقات کا اعتراف کیا ہے۔ فلسطینی قیدی جس کے ساتھ اس کے مبینہ تعلقات تھے اس پر اسرائیلی شہریوں پر مہلک حملہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ ایک اسرائیلی خاتون فوجی پر فلسطینی قیدی کے ساتھ جنسی تعلقات کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ خاتون اسرائیل کی ملٹری سروس کا حصہ تھی کیونکہ اسرائیل میں زیادہ تر لوگوں کے لیے فوج میں خدمات انجام دینا لازمی ہے۔ اس ضابطہ کے تحت اسرائیل میں خواتین کو کم از کم دو سال اور مردوں کو 32 ماہ تک ملکی فوج میں خدمات انجام دینا لازمی ہے۔ یہ اصول اندرون اور بیرون ملک اسرائیلی شہریوں پر لاگو ہوتا ہے۔ نئے تارکین وطن اور بعض مذہبی گروہوں کے لوگ طبی بنیادوں پر اس اصول سے مستثنیٰ ہیں۔ اس کے علاوہ خاص حالات میں کھلاڑی کم وقت کے لیے خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ خواتین فوجی اہلکاروں اور عمر قید کی سزا پانے والے قیدی کا نام جاری نہیں کیا گیا ہے۔ کیس کی سماعت کرنے والی عدالت نے حکم دیا ہے کہ جیل کی جگہ اور دیگر معلومات عام نہ کی جائیں۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق دوران تفتیش خاتون نے دعویٰ کیا کہ قیدی کے ساتھ چار دیگر خواتین کے بھی جسمانی تعلقات تھے۔ اسرائیل کی جیل سروس (آئی پی ایس) کا کہنا ہے کہ فلسطینی قیدی کو اس کے سیل سے نکال کر تفتیش کے لیے دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا ہے۔ جمعہ کے روز جیل سروس کی سربراہ کیٹی پیری اور قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گیویر نے اعلان کیا کہ خواتین فوجیوں کو اب ہائی سکیورٹی والی جیلوں میں تعینات نہیں کیا جائے گا جہاں فلسطینی ‘دہشت گردوں’ کو رکھا گیا ہے۔اسرائیلی میڈیا نے وزیر کے حوالے سے بتایا ہے۔ آنے والے دو سالوں میں تمام خواتین سپاہیوں کو جیلوں کے اندر بنائے گئے ہائی سیکوریٹی ونگز سے ہٹا دیا جائے گا۔ ملک کی ہائی سیکوریٹی جیلوں میں خواتین فوجیوں کو نہ رکھنے کا بار بار مطالبہ کیا جاتا رہا ہے لیکن عملے کی کمی کے باعث ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ گزشتہ سال ایک جیل میں فلسطینی قیدیوں پر وہاں تعینات خواتین اسرائیلی فوجیوں پر حملہ اور زیادتی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس معاملہ میں اسرائیلی وزراء نے تحقیقات کا حکم دیا تھا اور جیل کے کچھ سینئر اہلکاروں کو باہر پھینک دیا گیا تھا۔ اسرائیل کے علاوہ بھی کئی ممالک ایسے ہیں جہاں لازمی فوجی خدمات کا انتظام ہے۔ جنوبی کوریا میں قومی فوجی خدمات کے لیے مضبوط نظام موجود ہے۔ تمام جسمانی طور پر قابل مردوں کے لیے فوج میں 21 ماہ، بحریہ میں 23 ماہ یا فضائیہ میں 24 ماہ خدمات انجام دینا لازمی ہے۔ تاہم، اولمپکس یا ایشین گیمز میں گولڈ میڈل جیتنے والے کھلاڑی فوج میں لازمی سروس سے مستثنیٰ ہیں۔ جو کھلاڑی میڈل نہیں لاتے انہیں واپس آکر فوج میں خدمات انجام دینا ہوں گی۔ شمالی کوریا میں سب سے طویل لازمی فوجی خدمات کی فراہمی ہے۔ اس ملک میں مردوں کو 11 سال اور خواتین کو 7 سال فوج میں ملازمت کرنی پڑتی ہے۔ مشرقی آفریقی ملک اریٹیریا میں مردوں، نوجوانوں اور غیر شادی شدہ خواتین کو 18 ماہ تک ملکی فوج میں خدمات انجام دینا ہوتی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق، اریٹیریا میں 18 ماہ کی سروس کی مدت اکثر چند سال تک بڑھا دی جاتی ہے۔ کبھی کبھی یہ غیر معینہ مدت تک بھی کیا جاتا ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں 18 سے 34 سال کی عمر کے مردوں کے لیے لازمی سروس 21 ہفتہ طویل ہے۔ فوج میں لازمی شمولیت کا اصول ملک میں خواتین پر لاگو نہیں ہوتا لیکن وہ اپنی مرضی سے فوج میں شامل ہو سکتی ہیں۔ برازیل میں 18 سال کی عمر کے مردوں کے لیے ملٹری سروس لازمی ہے۔ یہ لازمی سروس 10 سے 12 ماہ تک جاری رہتی ہے۔ صحت کی وجوہات کی بنا پر فوج میں لازمی سروس کی صورت میں چھوٹ دی جا سکتی ہے۔ اگر کوئی نوجوان یونیورسٹی میں پڑھتا ہے تو کچھ عرصے بعد اسے فوج میں لازمی ملازمت کے لیے جانا پڑے گا۔ اس کے لیے فوجیوں کو معمولی تنخواہ، کھانا اور بیرکوں میں قیام ملتا ہے۔ اس کے علاوہ شام، جارجیا، لتھوانیا اور سویڈن میں لازمی فوجی دستے کا انتظام ہے۔