اسرائیلی فوج میں جبری بھرتی ،لاکھوں افراد کا احتجاج

   

تل ابیب، 31 اکتوبر (یو این آئی) اسرائیلی فوج میں لازمی بھرتی کے خلاف لاکھوں افراد نے سڑکوں پر نکل پر اپنا فیصلہ سنادیا، یروشلم میں فوجی بھرتی کے خلاف احتجاج کیلئے ریلی کا انعقاد کیا گیا۔ لاکھوں افراد پر مشتمل ریلی کے شرکاء ایک ایسے قانون کا مطالبہ کر رہے تھے جس میں اسرائیل کی لازمی فوجی خدمات سے بچنے کے حق کی ضمانت دی جائے ۔ ریلی کے شرکاء میں سیاہ ٹوپیاں پہنے مردوں کے ہجوم نے ترپال کے ٹکڑوں کو آگ لگا دی جبکہ سینکڑوں پولیس اہلکاروں نے شہر بھر کی کئی سڑکوں کو بند کردیا۔ مظاہرین نے یروشلم کی طرف جانے والی اہم سڑکوں پر مارچ کیا، جنہوں نے فوجی بھرتی کی مذمت کرنے والے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔ حال ہی میں، اسرائیلی حکومت نے بنیاد پرست ڈرافٹ ڈوجرز کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے ، ہزاروں کو سمن نوٹس بھیجے ہیں اور کئی مفروروں کو قید کیا ہے ۔ 1948 میں اسرائیل کی تخلیق کے وقت الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ وہ مرد جو اپنا وقت مقدس یہودی متون کا مطالعہ کرنے کیلئے وقف کرتے ہیں انہیں لازمی فوجی خدمات سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ اکتوبر 2023 میں غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے ، اس استثنیٰ پر دباؤ بڑھ گیا ہے ، کیونکہ اسرائیلی فوج اپنی جگہوں کو پر کرنے کیلئے جدوجہد میں مصروف ہے۔
اس استثنیٰ کو ختم کرنے کے بارے میں اسرائیل میں طویل عرصے سے بحث جاری ہے ۔ نیتن یاہو نے وعدہ کیا تھا کہ ان کی حکومت اس استثنیٰ کی ضمانت کیلئے قانون سازی کرے گی، لیکن وہ اب تک ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جولائی 2024 میں، الٹرا آرتھوڈوکس شاس پارٹی کے وزراء نے اس معاملے پر کابینہ سے استعفیٰ دے دیا، حالانکہ پارٹی نے باضابطہ طور پر اتحاد نہیں چھوڑا ہے۔ نیتن یاہو کی حکومت کی حمایت کرنے والی شاس پارٹی کے 11 ارکان پارلیمنٹ ہیں۔ پارٹی نے خبردار کیا ہے کہ اگر قانون میں فوجی خدمات سے استثنیٰ شامل نہیں کیا گیا تو وہ نیتن یاہو کی حمایت نہیں کریں گے ۔