تل ابیب: اسرائیلی فوج نے جمعہ کے روز اپنی مرتب کردہ ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہیکہ تقریباً دس روز قبل غزہ میں خوراک حاصل کرنے کیلئے جمع ہونے والے فلسطینیوں کے ایک ہجوم پر اسرائیلی فوج نے مختصر طور پر فائرنگ کی تھی۔ اس فائرنگ کی ضرورت اس وقت پڑی جب اسرائیلی فوج کو محسوس ہوا کہ خوراک حاصل کرنے والے فلسطینیوں میں بھگدڑ مچنے سے فوج کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ اس واقعہ میں فلسطینی وزارت صحت کے مطابق 115 فلسطینی اسرائیلی فائرنگ سے قتل ہوئے جبکہ 760 زخمی ہوگئے تھے۔ تاہم اسرائیلی فوج نے اپنے طور پر کی گئی تحقیقات میں ہلاکتوں کی بڑی وجہ بھگدڑ کو بتایا ہے۔ اس سلسلے میں اسرائیلی فوجی کمان نے اس سارے واقعہ کا جائزہ لیا اور یہ قرار دیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر امداد تقسیم کرنے والے قافلے پر کوئی فائرنگ نہیں کی گئی۔ تاہم اس وقت فائر شروع کیا جب متعدد مشتبہ لوگ قریب ہی موجود فوجیوں کی طرف لپکے۔ جس سے فوجیوں کو ڈر لگا کہ یہ ان کیلئے خطرہ ہو سکتے ہیں۔ یہ حملہ پچھلے ماہ کے اواخر میں ہوا تھا جس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور انسانی احساسات سے محروم نہ ہونے والی عالمی برادری نے شدید دکھ اور کرب کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کی مذمت کی تھی۔ اسرائیلی فوج کی طرف سے اس واقعہ کے تیسرے چوتھے دن بھی ایک ابتدائی رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں یہی بیان کیا گیا تھا کہ بڑی تعداد میں ہلاکتیں بھگدڑ کی وجہ سے ہوئیں۔غزہ میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت قحط کا سا سماں ہے اور 7 لاکھ 60 ہزار لوگ یو این رپورٹ کے مطابق قحط کی براہ راست زد میں ہیں۔ اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے امدادی قافلوں کا غزہ میں آنا دوبھر ہو چکا ہے۔ رفح راہداری کے راستے امداد کی ترسیل پر قدغنیں ہیں۔ شمالی غزہ میں 23 جنوری کے بعد کوئی امدادی قافلہ نہیں جانے دیا گیا۔ابھی پچھلے روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اسرائیل جانتے بوجھتے غزہ میں بھوک اور قحط کے حالات پیدا کر رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اسرائیلی فوج کی یہ رپورٹ اپنے آپ کو خود بری کرنے کی ایک کوشش کے طور پر تو سامنے آئی ہے مگر اسرائیل کی طرف سے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا جس کے مطابق آئندہ اس قسم کا کوئی واقعہ نہیں ہوگا۔
یا اسرائیل امدادی قافلوں کے راستے میں کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو دور کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔