دو سالہ جنگ کے خاتمہ کی سب سے بڑی پیشرفت، اسرائیل کو یرغمالیوں کی رہائی کی امید
تل ابیب 10اکتوبر (یو این آئی) اسرائیلی حکومت نے جمعہ کو فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کی توثیق کردی، جس کے بعد 24 گھنٹوں کے اندر غزہ میں جنگی کارروائیاں روکنے اور اس کے 72 گھنٹے بعد اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔اسرائیلی کابینہ نے جمعہ کی صبح یہ معاہدہ منظور کیا، جبکہ اس سے تقریباً 24 گھنٹے قبل ثالثوں نے اس پر اتفاق کا اعلان کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی پیش کردہ منصوبے کے تحت اسرائیلی فوج کی تدریجی واپسی شامل ہے تاکہ دو سال سے جاری غزہ کی جنگ کا خاتمہ کیا جاسکے ۔ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے انگریزی زبان کے ’ایکس‘اکاؤنٹ پر کہا گیا کہ ‘حکومت نے تمام یرغمالیوں، زندہ اور مردہ، کی رہائی کے فریم ورک کی منظوری دے دی ہے ۔ یہ جنگ اسرائیل کی عالمی سطح پر تنہائی کا باعث بنی اور مشرق وسطیٰ کے منظرنامے کو بدل کر رکھ دیا، کیونکہ یہ ایک علاقائی تنازع میں تبدیل ہو چکی تھی جس میں ایران، یمن اور لبنان بھی شامل ہو گئے تھے ، اس لڑائی نے امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کو بھی سخت آزمائش میں ڈال دیا، کیونکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ان پر معاہدہ طے کرنے کے لیے دباؤ بڑھایا۔ معاہدے کے اعلان کے بعد اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں نے خوشی کا اظہار کیا، جو 2 سالہ جنگ کے خاتمے کی سب سے بڑی پیش رفت ہے ، جس میں اب تک 67 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اور اس سے ان آخری یرغمالیوں کی واپسی ممکن ہوگی جنہیں حماس نے ان حملوں کے دوران پکڑا تھا جن کے بعد یہ جنگ شروع ہوئی تھی۔ حماس کے جلاوطن رہنما خلیل الحیہ نے کہا کہ انہیں امریکہ اور دیگر ثالثوں کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ جنگ ختم ہو چکی ہے ۔ اسرائیلی حکومت کے ایک ترجمان نے بتایا کہ جنگ بندی حکومت کی منظوری کے 24 گھنٹے کے اندر نافذ ہو جائے گی، اور اس کے بعد 72 گھنٹوں کے اندر غزہ میں موجود یرغمالیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ اب بھی 20 اسرائیلی یرغمالیوں کے زندہ ہونے کا یقین ہے ، جب کہ 26 کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے اور دو کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، حماس کا کہنا ہے کہ لاشوں کی واپسی زندہ قیدیوں کی رہائی سے زیادہ وقت لے سکتی ہے ۔ معاہدے کے نافذ ہوتے ہی امدادی ٹرک خوراک اور طبی سامان لے کر غزہ میں داخل ہوں گے تاکہ ان عام شہریوں کی مدد کی جا سکے جن میں سے لاکھوں اپنے تباہ شدہ گھروں کے ملبے اور خیموں میں پناہ لیے ہوئے ہیں، کیونکہ اسرائیلی افواج نے ان کے شہر صفحۂ ہستی سے مٹا دیے تھے ۔
امریکہ ، غزہ جنگ بندی معاہدہ کی ’نگہبانی‘ کرے گا
200 فوجی اہلکاروں پر مشتمل ایک امریکی دستہ اسرائیل بھیجا جائے گا ، مصر اور قطر کے فوجی بھی شامل
واشنگٹن، 10 اکتوبر (یو این آئی) امریکہ اسرائیل اور حماس کے مابین غزہ جنگ بندی معاہدے کی ’’مانیٹرنگ‘‘کیلئے اسرائیل میں تقریباً 200 فوجی بھیج رہا ہے ۔ یہ اطلاع امریکی ذرائع ابلاغ نے دی۔ ایک سینئر امریکی اہلکار نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ ٹاسک فورس معاہدے کی نگہبانی، معائنہ اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ معاہدہ کی کسی بھی حالت میں خلاف ورزی نہ ہو۔ ایک اہلکار کے مطابق اس امریکی ٹیم میں مصر، قطر اور ترکیہ کی مسلح افواج کے ارکان شامل ہوں گے ۔ ایک اور امریکی اہلکار نے کہا کہ ٹاسک فورس غزہ میں نہیں ہو گی۔ واضح رہیکہ غزہ جنگ بندی کی نگرانی کے لئے امریکہ کی نگرانی میں 200 اہلکاروں پر مشتمل ایک بین الاقوامی فورس جنگ بندی کی نگرانی کرے گی۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک سینئر امریکی عہدے دار نے یہ بات کہی ہے ۔رپورٹس کے مطابق مشترکہ فورس کی تعیناتی کا مقام تاحال واضح نہیں ہوسکا تاہم امریکی عہدیدار نے واضح کیا کہ کوئی بھی امریکی فوجی غزہ نہیں بھیجا جائے گا۔ عہدیدار کے مطابق فورس میں مصر، قطر، ترکی اور ممکنہ طور پر متحدہ عرب امارات کے فوجی شامل ہوں گے ، جن کا بنیادی کام جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنانا، کسی ممکنہ خلاف ورزی یا دراندازی کی نگرانی کرنا ہوگا۔ عہدے دار کا مزید کہنا تھا کہ امریکی سنٹرل کمانڈ اسرائیل میں ایک سول ملٹری کوآرڈینیشن سنٹر قائم کرے گی جو اس بین الاقوامی فورس کے رابطے اور انضمام کا مرکز ہوگا۔ یہ سنٹر انسانی امداد کی ترسیل کے ساتھ ساتھ سکیورٹی معاونت میں کردار ادا کرے گا۔ یہ فورس امریکی سینٹرل کمانڈکے سربراہ ایڈمرل بریڈ کوپر کی قیادت میں تشکیل دی جا رہی ہے ۔ واضح رہے کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے بھی غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے کی منظوری دے دی گئی ہے ۔ غزہ امن منصوبے کی منظوری کیلئے اسرائیلی حکومت کی کابینہ کے اجلاس کا انعقاد کیا گیا، جس میں امریکی نمائندے اسٹیو وٹکوف اور صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے بھی شرکت کی۔ رپورٹس کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے جاری کردہ بیان کے مطابق حکومت نے غزہ میں قید تمام مغویوں کی رہائی کے معاہدے کی منظوری دے دی ہے ۔ منصوبے کی منظوری کے ساتھ ہی جنگ بندی اب مؤثر ہو گئی ہے ۔