اسرائیل – خطروں اور اندیشوں کا سرچشمہ/ از: مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ

   

’’عالم عربی کی تاریخ میں سب سے بڑا جو نامبارک واقعہ اور مغربی طاقتوں خاص طور پر برطانیہ کی طرف سے منحوس اقدام ہوا‘ وہ اسرائیل کا قیام اور فلسطین کے بیشتر حصے پر یہودی حکومت اور مسجد اقصیٰ پر ان کی تولیت اور قبضہ کا افسوس ناک واقعہ ہے جو نہ صرف عالم عربی بلکہ پورے عالم اسلامی کے لیے ایک شرم ناک واقعہ اور مستقبل کے لیے خطروں اور اندیشوں کا سرچشمہ ہے۔ اس کی بڑی ذمہ داری عرب لیگ اور اس وقت کی آس پاس کی عرب حکومتوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اس خطرہ اور مغربی طاقتوں کے عزائم اور اسرائیل اور یہودیت عالمیہ اور صہیونیت کے ارادوں، مقاصد اور پروگراموں کا مطالعہ نہیں کیا۔ وہ اس منحوس واقعہ کی سنگینی اور اس کے آئندہ خطرات کی شدت کا اندازہ نہیں کرسکتے۔

لیکن اس صورت حال کا مقابلہ کرنے اور اسرائیل کے وجود اور خطرہ سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے پھر ایک مرد مؤمن، ایک شیر دل مجاہد اور ایک مخلص قائد کی ضرورت ہے جو البطل الناصر لدین اللّٰہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا کردار ادا کرے اور ان کے نقش قدم پر چلے۔ یہ سیاسی بازی گروں اور قومیت عربیہ کے علم برداروں کا کام نہیں۔ ایک عرب مؤرخ وفاضل اور شاعر خیر الدین زرکلی نے امت اسلامیہ اور فلسطین کو خطاب کرکے کئی برس پہلے جو کہا تھا وہ آج بھی صادق ہے ؎

ھات صلاح الدین ثانیۃ فینا

وجددی حطین أو شبہ حطینا

(اے امت مسلمہ اور اے فلسطین! دوبارہ صلاح الدین کو میدان میں لا اور حطین کی جنگ کو تازہ کر یا اس سے ملتے جلتے کسی دوسرے فیصلہ کن معرکہ کو)

اللہ تعالیٰ اس نازک موقع پر ہمارے دینی وسیاسی قائدین، فکری رہنماؤں، ابلاغ عامہ کے ذرائع وصحافت پر اثر رکھنے والے اہل قلم اور خاص طور پر پر جوش نوجوانوں کو اس کی ہمت اور توفیق دے کہ وہ مسیحی مغرب کے مخالف اسلام دانشوروں اور اسرائیلی مفکرین کی سازش کو سمجھ لیں اور اس کا شکار نہ ہونے دیں اور اس آیت کو اپنا رہنما بنائیں: 

{وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہُ بِإِذْنِ رَبِّہِ وَالَّذِیْ خَبُثَ لاَ یَخْرُجُ إِلاَّ نَکِداً}

(اورجو زمین پاکیزہ ہے اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے (نفیس ہی) نکلتا ہے اور جو خراب ہے اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہوتا ہے۔)‘‘

(انتخاب از: عالم عربی کے لیے سب سے بڑا خطرہ)