امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے مذاکرات سے قبل مملکت کا وضاحتی بیان
ریاض ۔9؍نومبر ( ایجنسیز )امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے امکانات کے بارے میں پرجوش بیانات دیے ہیں لیکن امکان ہے کہ یہ عمل اس وقت تک نہ ہو جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اس ماہ وائٹ ہاؤس کا دورہ کریں میڈیاکے مطابق دہائیوں کی دشمنی کے بعد اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کا قیام مشرق وسطیٰ کے سیاسی اور سکیورٹی منظرنامے کو بدل سکتا ہے اور اس سے علاقہ میں امریکی اثرورسوخ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ٹرمپ نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ سعودی عرب بہت جلد اْن مسلم ممالک میں شامل ہوگا جو 2020 کے ابراہیمی معاہدوں کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سعودی عرب نیواشنگٹن کو اشارہ دیا ہے کہ اس کا مؤقف نہیں بدلا ہے۔ وہ صرف اْس وقت معاہدہ پر دستخط کرے گا جب فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے ایک روڈ میپ پر اتفاق ہو جائے۔اس کا مقصد یہ ہے کہ 18 نومبر کو وائٹ ہاؤس مذاکرات کے دوران یا بعد میں کوئی ابہام پیدا نہ ہو۔سعودی ولی عہد، محمد بن سلطان جو عام طور پر ایم بی ایس کے نام سے معروف ہیں کے بارے میں جوناتھن پینی کاف، سابق امریکی انٹیلی جنس افسر برائے مشرق وسطیٰ نے کہا کہ وہ کسی بھی ممکنہ رسمی تعلقات کو اس وقت تک آگے نہیں بڑھائیں گے جب تک فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے کوئی قابلِ اعتبار راستہ موجود نہ ہو۔پینی کاف، جو اب اٹلانٹک کونسل کے تھنک ٹینک سے وابستہ ہیں نے کہا کہ ایم بی ایس غالباً ٹرمپ پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں گے تاکہ خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے زیادہ واضح اور مضبوط امریکی حمایت حاصل کی جا سکے۔