حسن البتی
غزہ پٹی میں اسرائیل کے فضائی و زمینی حملوں اور ان حملوں کے ذریعہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور قتل عام کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ اسرائیل نے ایک سال تک فلسطینیوں کی نسل کشی و قتل عام کا سلسلہ جاری رکھنے کے باوجود اب بھی اپنی وحشیانہ کارروائیوں کو روکا نہیں بلکہ اس کے جنگی لڑاکا طیارے، دبابے اور جنگی جہاز ساری غزہ پٹی پر اندھا دھند بمباری و شلباری کررہے ہیں نتیجہ میں غزہ میں جس کی آبادی 23 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اس آبادی کی زندگیوں کے تمام پہلو بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں عمارتیں تباہ و برباد ہوگئی ہیں جن میں رہائشی عمارتوں سے لیکر اسپتالوں، اسکولوں، یونیورسٹیوں کی عمارتیں بھی شامل ہیں۔ اسرائیل کی اندھا دھند بمباری و شلباری اور مزائلوں کی بارش میں مساجد، گرجا گھر، بیکریاں یہاں تک کہ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارہ کی پناہ گاہوں کی عمارتیں بھی تباہ ہوگئی ہیں۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ غیر قانونی و غیر انسانی ناکہ بندی و محاصرہ کے ساتھ اسرائیل کے وحشیانہ حملوں نے کسی بھی فلسطینی کو نہیں بخشا۔ فلسطین کی وزارت صحت نے شہداء اور زخمیوں سے متعلق جو اعداد و شمار جاری کئے ہیں ان میں انکشاف کیا گیا کہ 8 اکٹوبر2023 سے 9 اکٹوبر 2024 تک اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 42 ہزار اور زخمی فلسطینیوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ 10 ہزار فلسطینیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہنوز لاپتہ ہیں (ان کے بارے میں یہی کہا جارہا ہے کہ وہ لوگ بھی شہید ہوچکے ہیں اور ان کی نعشیں ملبوں تلے دبی ہوئی ہیں ) ۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ انسانیت پر بدنما داغ ہے کہ 42 ہزار سے زائد شہداء میں خواتین اور بچوں کی اکثریت ہے ( شہید بچوں کی تعداد 16891 بتائی جارہی ہے ) ۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ کبھی بھی میری کسی عسکریت پسند یا سیاسی گروپ سے کوئی وابستگی نہیں رہی کوئی تعلق نہیں رہا۔
اسرائیل نے اپنے فضائی اور زمینی حملوں کے ذریعہ میری یونیورسٹی، اسلامک یونیورسٹی آف غزہ کو تباہ کردیا۔ یہ غزہ میں اعلیٰ تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنے والے 18 تعلیمی اداروں میں سے ایک تھی ۔ اسرائیل کے ان تمام تعلیمی اداروں کو زمین دوز کرنے سے قبل ان میں تقریباً 87 ہزار طلبہ مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ آپ کو بتادوں کہ امریکہ سے واپسی کے بعد 1997 میں راقم الحروف نے اسلامک یونیورسٹی آف غزہ کے شعبہ انگریزی میں شمولیت اختیار کی۔ امریکہ کی کیلیفورنیا یونیورسٹی سے لسانیات میں ایم اے کیا۔ پھر بوسٹن کالج سے فروغ زبان میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اسلامک یونیورسٹی آف غزہ لوٹ آیا جہاں پیشہ تدریس سے وابستہ ہوگیا۔ تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا۔ مقامی اور بین الاقوامی جرائد میں میرے مضامین بھی شائع ہونے لگے۔ اس کے علاوہ مختلف سمیناروں اور کانفرنسوں ، سمپوزیمس اور ورکشاپس میں بھی حصہ لیتا رہا۔ ایلایٹہ لینگویسٹکس میں کئی ایم اے مقالہ جات کی تیاری میں ممتحن کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کا موقع بھی ملا۔
بہر حال اکٹوبر 2023 میں اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے اسلامک یونیورسٹی آف غزہ کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا نتیجہ میں یونیورسٹی کی کئی عمارتیں زمین دوز ہوگئیں۔ پھر نومبر میں اسرائیل نے زمینی حملے کئے، بلڈوزروں اور دبابوں کے ذریعہ مغربی غزہ پٹی پر قبضہ کیا ۔ اس دوران اسرائیل نے مزید بے شمار عمارتوں کو منہدم کردیا، دوسری عمارتوں کو آگ لگادی۔ جب اسرائیلی فورسیس وہاں سے چلی گئیں تب دو ہفتوں بعد میں یہ دیکھنے کیلئے گیا کہ آخر وہاں کیا باقی رہ گیا ہے۔ وہاں کے حالات دیکھ کر میں غمزدہ رہ گیا، خود مجھے میری آنکھوں پر یقین نہیں ہورہا تھا، وہاں کچھ باقی نہیں بچا تھا، ہر چیز زمین کے برابر کردی گئی۔ آپ کو بتادوں کہ گذشتہ ایک سال سے میں ایک بھی کلاس نہیں لے سکا جبکہ کورونا وائرس کی عالمی وباء کے دوران جب یونیورسٹی بند کردی گئی تھی اسو قت بھی میں آن لائن پڑھانے کے قابل تھا۔ میرییوٹیوب چیانل میں ہنوز تین آن لائن کورسیس موجود ہیں جو میں نے طلبہ کو پڑھائے تھے۔ اسلامک یونیورسٹی آف غزہ اور انگلش ڈپارٹمنٹ کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے ہیں۔
ہاں ! ایک بات ضرور ہے کہ ہم اپنے رنج و الم اور غصہ و برہمی کو چھپانے سے قاصر ہیں تاہم راقم الحروف پُرامید ہے اور حوصلہ نہ ہارنے کیلئے پُرعزم بھی ہوں۔ پُرامید رہنا دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے رہنے کا ایک ذریعہ ہے جسے ہم فلسطینی ماہرین تعلیم؍ اساتذہ کو اپنے طلبہ کی مدد خاص طور پر موجودہ تکلیف دہ حالات کا مقابلہ کرنے ، ذہنی دباؤ سے محفوظ رکھنے میں مدد کرنی چاہیئے۔ میرا یہ ایقان ہے کہ لاکھ تاریکی ہے اس کے باوجود اُمید کا دامن ہمیں نہیں چھوڑنا چاہیئے، اس لئے میں اپنے مضمون میں یہ نہیں کہتا کہ میری یونیورسٹی اسلامک یونیورسٹی آف غزہ تھی بلکہ میں یہی کہتا ہوں اور لکھتا ہوں کہ اسلامک یونیورسٹی غزہ ہے۔ ایک بات ضرور ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں تعلیمی اداروں کو یہ پہلی مرتبہ برباد نہیں کیا بلکہ ماضی میں جب بھی اس نے جامعات، کالجوں اور اسکولوں کو زمین دوز کیا فلسطینیوں نے پورے عزم و حوصلے اور جوش و خروش کے ساتھ ان کی دوبارہ تعمیر عمل میں لائی۔
نوٹ : ( حسن البتی اسلامک یونیورسٹی غزہ میں انگریزی کے پروفیسر ہیں )