اسرائیل پر پابندیاں لگوانے میں ناکامی ، ڈچ وزیر مستعفی

   

ایمسٹرڈیم۔ 23 اگست (ایجنسیز) غزہ کی جنگ کے تناظر میں اسرائیل کے خلاف نئی پابندیوں کے نفاذ میں ناکامی پرنیدرلینڈز کے وزیرِ خارجہ کاسپر فیلڈکمپ نے جمعہ کی شام استعفیٰ دے دیا۔ فیلڈکمپ نے ملک کی پارلیمنٹ کو اطلاع دی تھی کہ وہ غزہ سٹی اور دیگر گنجان آباد علاقوں میں اسرائیلی فوجی کارروائی کے منصوبہ کے جواب میں نئے اقدامات متعارف کرانا چاہتے ہیں، لیکن وہ اپنی اتحادی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ نیدر لینڈز کے اسرائیل میں سابق سفیر فلٹکامپ نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں لگتا ہے کہ وہ خود ہی پالیسی پر عمل درآمد اور کوئی راستہ متعین کرنے کے قابل نہیں رہے، جو وہ ضروری سمجھتے ہیں۔ فیلڈکمپ کے استعفے کے بعد ان کی سینٹر رائٹ جماعت نیو سوشل کانٹریکٹ کے دیگر وزراء نے بھی کابینہ چھوڑ دی، جس کے نتیجے میں ڈچ حکومت بحران کا شکار ہوگئی ہے۔ نیو سوشل کانٹریکٹ پارٹی کے سربراہ ایڈی فان ہیجْم نے کہا کہ اسرائیل حکومت کے اقدامات بین الاقوامی معاہدوں کی مکمل خلاف ورزی کر رہی ہے، اس لیے وہ اسرائیلی حکومت کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ ڈچ حکومت پہلے ہی جون میں اس وقت ٹوٹ گئی تھی، جب اسلام مخالف رہنما گیئرٹ ویلڈرز نے ملک کی چار جماعتی مخلوط حکومت سے امیگریشن کے معاملے پر اختلاف کے بعد علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ باقی تین جماعتیں اکتوبر میں انتخابات ہونے تک نگران حکومت کے طور پر متحد رہیں۔ وزیرِ اعظم ڈک شوف جمعہ کی شام دیر گئے پارلیمنٹ سے اس بحران پر خطاب کرنے والے تھے۔ اس سے قبل غذائی بحران سے جڑے ایک عالمی ادارے نے جمعہ کے روز کہا تھاکہ غزہ کا سب سے بڑا شہر قحط کا شکار ہے اور اگر جنگ بندی نہ ہوئی اور انسانی ہمدردی کی امداد پر عائد پابندیاں ختم نہ کی گئیں تو یہ قحط پورے علاقہ میں پھیلنے کا امکان ہے۔ نیدرلینڈز کی پارلیمنٹ اسرائیل کے خلاف پابندیوں پر بحث بار بار مؤخر کرتی رہی، جسے جمعرات سے جمعہ تک کے اجلاس میں بھی ملتوی کر دیا گیا کیونکہ کابینہ کا اجلاس جمعہ کی دوپہر سے طویل ہوتا چلا گیا۔ گرین لیفٹ اور لیبر پارٹی کے اتحاد سے جژی رہنما کاٹی پیری نے پارلیمان سے خطاب میں کہا تھا کہ یہاں قحط ہے، نسلی تطہیر ہو رہی ہے اور نسل کشی جاری ہے اور ہماری کابینہ کئی گھنٹوں سے یہ سوچ رہی ہے کہ کوئی اقدام کرے یا نہ کرے۔ یہ شرمناک ہے۔‘‘ فلٹکامپ نے منصوبہ بنایا تھا کہ اسرائیلی بستیوں سے درآمدات پر پابندی لگائی جائے جو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں قائم ہیں تاکہ ممکنہ فوجی کارروائی کے حوالہ سے اسرائیل پر دباؤ ڈالا جا سکے۔