اسرائیل کو اقوام متحدہ سے خارج کردینے کی ضرورت

   

سامر جابر
اسرائیل۔ فلسطین جنگ کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو ہوا جس کے بعد سے اسرائیل نے انسانیت کے خلاف جرائم کے معاملہ میں تمام ظالموں و جابروں کے قائم کردہ ریکارڈس توڑ دیئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ عالمی حکومتیں‘ عالمی برادری‘ عالمی ادارے سب کے سب اسرائیل کو نہتے فلسطینیوں کے خلاف درندگی سے روکنے میں بری طرح ناکام رہے۔ اسرائیلی فورسیس کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتلِ عام اور نسل کشی روکنے میں اقوام متحدہ خاص طور پر بری طرح ناکام رہا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تاحال اسرائیل کے زمینی اور فضائی حملوں ( راکٹوں، بموں اور میزائلوں کی بارش کے ساتھ ساتھ صیہونی فورسیس کی فلسطینیوں بالخصوص بچوں اور خواتین پر اندھا دھند فائرنگ ) میں 44000 سے زائد فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ 105000 سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے، شہداء میں 70 فیصد بچے اور خواتین شامل ہیں جبکہ زخمیوں میں بھی بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔ دوسری طرف اس جنگ میں اسرائیل نے لبنان، شام، عراق، ایران اور یمن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ لبنان میں اسرائیلی بمباری، شلباری، میزائلوں کے برسانے کے نتیجہ میں 3700 لبنانی باشندے شہید اور15000 سے زائد زخمی ہوئے۔
ان حالات میں اب وقت آگیا ہے کہ اسرائیل کی درندگی‘ انسانیت کے خلاف اس کے جرائم ، فلسطینیوں کی نسل کشی کے پیش نظر اُسے اقوام متحدہ سے نکال باہر کرنا چاہیئے۔ اگر دیکھا جائے تو اسرائیل۔ فلسطین جنگ حقیقت میں فلسطینیوں کے قتل عام اور ان کی نسل کشی کی جنگ ہے جس میں اسرائیل نے نہ صرف بدترین نسلی عصبیت کا مظاہرہ کیا بلکہ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارہ کے ارکان عملہ پر حملے بھی کئے، حد تو یہ ہے کہ اس نے اقوام متحدہ کے ادارہ UNRWA کی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کردیں جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اسرائیل کسی بھی طرح اقوام متحدہ میں موجود رہنے کا مستحق نہیں ہے۔ چنانچہ فلسطین اور دنیا بھر میں اس مطالبہ کو لیکر سول سوسائٹی کی تحریک آگے بڑھ رہی ہے کہ اسرائیل کو اقوام متحدہ سے خارج کردیا جائے یا اسے اقوام متحدہ کے رواں اجلاس سے معطل کیا جائے کیونکہ اس نے مقبوضہ فلسطینی علاقہ میں بدترین عصبیت کا مظاہرہ کیا۔ غزہ میں اس کے جنگی جرائم کا سلسلہ جاری ہے، اس نے صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ صیہونی ریاست نے اقوام متحدہ چارٹر کی متعدد خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا ہے۔ جہاں تک اسرائیل کو اقوام متحدہ سے نکال باہر کئے جانے کے مطالبہ کا سوال ہے یہ global Boycot, (BDS)Disinvestment’ Sanctions تحریک کے خطوط پر ہے۔ یہ مطالبہ کئی ماہ سے کیا جارہا ہے، اور اب اس مطالبہ نے غیر معمولی زور پکڑا ہے تاہم اس تحریک میں داخلی طور پر اسرائیل کی اقوام متحدہ رکنیت ختم کرنے سے متعلق مطالبہ یا زور دینے کے فوائد و نقصانات پر بحث جاری ہے کیونکہ تحریک میں اسرائیل کے امکانی جوابی اقدامات کو لیکر بھی فکر مندی ظاہر کی جارہی ہے۔
کچھ لوگوں کو اس بات کا خدشہ ہے کہ اسرائیل‘ اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو فلسطینیوں کو ضروری خدمات فراہم کرنے سے روک کر جواب دے سکتا ہے۔ خود اقوام متحدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کی جانب سے اسرائیل کی لعنت و ملامت کی جارہی ہے( فی الوقت مذمت، لعنت و ملامت سے کہیں زیادہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے ) ان حالات میں اسرائیل کی اقوام متحدہ سے بے دخلی کے طاقتور نعرہ کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اسرائیل نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں UNRWA پر پابندی کیوں عائد کی ہے؟ اس بارے میں مقبوضہ مغربی کنارہ کے پناہ گزین کیمپ میں کام کرنے والی پاپولر سرویس کمیٹیوں کے ترجمان الناصر شراعیہ نے اپنے حالیہ بیان میں اس کا خلاصہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ UNRWA کی سرگرمیوں پر پابندی دراصل 1948 میں یوم نکبہ میں جن فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کرکے نکال دیا گیا تھا ان کے حق واپسی کو خطرہ میں ڈالنے کیلئے بنائی ئی ایک وسیع تر حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ اسرائیل کے قیام کیلئے 1948 میں 7 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو زبردستی ان کے اپنے گھروں اور آبادیوں سے نکال باہر کیا گیا تھا، اس دن کو فلسطینی یوم نکبہ کے طور پر مناتے ہیں۔ آپ کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ نکبہ کے فوری بعد اقوام متحدہ جنرل اسمبلی نے قرارداد 194 منظور کی جو ملک سے نکالے گئے فلسطینیوں کے حقوق کی تائید و حمایت اور تصدیق کرتی ہے۔
واضح رہے کہ مذکورہ قرارداد کی منظوری کے ایک سال بعد UNRWA کا قیام عمل میں لایا گیا اور اسے فلسطینی پناہ گزینوں کو ضروری خدمات فراہم کرنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی جیسے تعلیم، پرائمری ہیلتھ کیر وغیرہ۔ ویسے بھی فلسطینی 1948 سے اپنے وطن واپسی اور اپنے گھروں کو واپسی کے منتظر ہیں۔ اپنی سرگرمیوں کے ایک حصہ کے طور پرUNRWA کو فلسطینی پناہ گزینوں اور ان کی اولاد کے ناموں کے اندراج کیلئے Regestration log رکھنے کی ضرورت ہے جس میں 1948 پناہ گزینوں سے لیکر جنگوں و تنازعات میں فلسطینی زبردستی نکالے گئے یا اپنی جان بچانے کیلئے راہ فرار اختیار کرنے والوں کے ناموں کا اندراج اس میں شامل ہے۔ چونکہ یہ اندراج کا ایک سرکاری عمل ہے باالفاظ دیگر ایک سرکاری رجسٹری ہے اس لئے یہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے اور پناہ گزین اسے پناہ گزین کا موقف ثابت کرنے کیلئے منظور قانونی ثبوت پیش کرسکتے ہیں۔کئی طریقوں سے اقوام متحدہ کی یہ ایجنسی فلسطینیوں کے حق واپسی کا تحفظ کرتی ہے ان کے اس حق کی محافظ ہے لیکن اسرائیل کی جانب سےUNRWA پر پابندی عائد کرنے کا مقصد فلسطینیوں کے حق واپسی کو ختم کرنا اپنی نئی یہودی بستیاں بسانے اور ان یہودی نوآبادیات کو مستقل بناناہے۔
آپ اور ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل نے اپنے اس ناپاک مقصد کے حصول کیلئے غزہ میں 7 اکتوبر 2023 کو چھیڑی گئی جنگ کے ساتھ ہی کوششیں شروع کردی ہے۔ اس نے UNRWA کی سہولتوں پر حملے کرتے ہوئے اس کے درجنوں ارکان عملہ کو قتل کرکے اور اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیموں کے دیگر عہدہ داروں پر مزاحمتی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کرکے اسے خطرہ میں ڈالنے کی مسلسل کوششیں کررہا ہے لیکن اسرائیل اپنے ان دعوؤں کو تاحال ثابت نہ کرسکا۔ اسرائیل ہر حال میں غزہ اور فلسطین کے دیگر علاقوں سے UNRWA کا نام و نشان مٹانے کا خواہاں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ غزہ میںآبادی کو امداد فراہم کرنے کا کام غیر سرکاری تنظیموں سے جڑے اور کام کررہے پرائیویٹ سیکورٹی کنٹراکٹرس کے حوالے کرنے پر غور کررہا ہے۔ اسرائیل اسی ماڈل کو استعمال کرنے کا خواہاں ہے جو امریکہ نے افغانستان میں اور عراق میں استعمال کرنے کیلئے تیار کیا ۔ اگراسرائیل ایسا کرتا ہے تو حالات مزید دھماکو ہوسکتے ہیں۔ اسرائیل کی اس خطرناک حکمت عملی کا جواب یہی ہے کہ اسرائیل کو اقوام متحدہ سے نکال دیا جائے۔ اگر اسے اقوام متحدہ سے خارج کیا جاتا ہے تو اسرائیل عالمی برادری سے کٹ کر رہ جائے گا اورپھر غزہ میں جنگ جاری رکھنا اس کیلئے مشکل ہوجائے گا۔ وہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک اور ایجنسیوں کے خلاف کارروائیوں سے بھی گریز کرے گا۔