اسرائیل کو غزہ میں قتل عام سے کیسے روکا جاسکتا ہے ؟

   

عبدالجبار
انڈی پنڈنٹ ٹی وی کی ایک رپورٹ ( مورخہ 12 ڈسمبر 2024 ) کے مطابق غزہ کے 96 فیصد بچوں کی اموات یقینی دکھائی دیتی ہے جبکہ اسرائیلی فضائی اور زمینی حملوں کے ذریعہ قبرستان میں تبدیل کردیئے گئے غزہ کے 50 فیصد بچے جینا نہیں چاہتے ۔ جہاں تک غزہ کے 96 فیصد بچوں کی یقینی موت کا سوال ہے اس کی ’’ڈیموکریسی ناو‘‘ سیو دی چلڈرن ، کامن ڈریمس ، دی گارجین ریلیف ویب اور کئی ایک دوسروں ذرائعوں نے تصدیق کی ہے ۔ دیگر نے جارحیت ، علحدگی اور بڑے پیمانہ پر بے چینی جیسی علامتیں دکھائیں ہیں ۔ اس کے علاوہ غزہ کے بچوں کے بارے میں یہ بات سامنے آئی جسے ہم ایک تلخ حقیقت بھی کہہ سکتے ہیں کہ اسرائیل کی اندھا دھند بمباری میں اپنے والدین ، اپنے بھائی بہنوں اور دوسرے ارکان خاندان کو شہید ہوتے دیکھنے کے نتیجہ میں ان بچوں کو نفسیاتی طورپر شدید نقصان پہنچا ہے ۔
اقوام متحدہ کے کئی ذیلی ادروں نے متعدد مرتبہ یہ کہا ہے کہ غزہ کو اسرائیل نے قبرستان میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ۔ اسرائیل ،اسکولوں ، اسپتالوں ، پناہ گزیں کیمپوں ، مساجد ، گرجا گھروں کو بمباری کا مسلسل نشانہ بنارہا ہے جس میں فلسطینیوں کے چتھڑے اُڑ رہے ہیں ۔ انسانوں کو بمباری کی زد میں آکرشہید ہوتے ، اُن کے جسموں کے تکڑوں کو اُڑتے بکھیرتے دیکھ کر فلسطینی بچوں پر نفسیاتی لحاظ سے بہت خطرناک اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
نارمن فریکل اسٹین نے 45 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی اسرائیل کے ہاتھوں شہادت کو High Tech Murder سے تعبیر کیا ۔ آپ کو بتادیں کہ فلسطینی شہداء میں خواتین اور بچوں کی اکثریت ہے ۔ ایک لاکھ دس ہزار سے زائد زخمیوں میں بھی خواتین اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل ۔ فلسطین جنگ کا آغاز 7 اکٹوبر 2023ء کو ہوا اور فلسطینیوں کے قتل عام ، اُن کی نسل کشی و نسلی تطہیر کی انسانیت دشمنی مہم کے پہلے سال کے دوران اسرائیل نے 17000 فلسطینی بچوں کا قتل کیا ( جن میں ایک دن کا بچہ بھی شامل ہے ) حالانکہ اس جنگ سے بچوں کا کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔ فلسطینی بچوں اور دوسروں کے بشمول خواتین اور فلسطینی نوجوانوں کا روزآنہ کی بنیاد پر قتل جاری ہے ۔
اسرائیلی صدر ، وزیراعظم اور اسرائیل کی فوجی قیادت داخلی عہدیداروں نے بار بار کہا ہے کہ وہ فلسطینی عسکریت پسندوں اور شہریوں میں کوئی امتیاز نہیں کرتے ۔ اس بات کا انکشاف وار چائلڈ برطانیہ کی ہیلن پاٹنسنس نے کیا ۔ وہ اسرائیلی فورس کے ہاتھوں فلسطینی باشندوں بالخصوص بچوں کے قتل عام پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کچھ یوں کہتی ہیں ’’رپورٹس اس برہنہ حقیقت کو آشکار کرتی ہیں کہ غزہ بچوں کیلئے دنیا کے سب سے خطرناک اور بھیانک مقامات میں سے ایک ہے ۔ اسرائیل اسپتالوں ، اسکولوں اور مکانات کو زمین کے برابر کرنے کے ساتھ بڑے پیمانہ پر نفسیاتی تباہی کی ایک نہ ختم ہونے والی داستاں چھوڑی ہے اور اس تباہی نے فلسطینی بچوں کو وہ زخم دیئے ہیں جو نظر نہیں آتے لیکن ان زخموں کا درد اس قدر زیادہ ہے کہ انکی زندگیاں داؤ پر لگی ہیں جبکہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس جنگ سے فلسطینی بچوں کا کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔
واشنگٹن پوسٹ کی اشاعت مورخہ 3 نومبر 2024 ء کے مطابق شمالی غزہ کی ساری آبادی کو موت کا یقینی جوکھم لاحق ہے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ معصوم بچوں و بے قصور خواتین کے قتل عام کا جاری سلسلہ رُکے گا ؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ امریکہ اور دنیا بھر میں جو گراس روٹ تحریکیں ہیں جو قابل ستائش کام کررہی ہیں ایسے لوگ جو کسی بھی تحریک میں شامل نہیں ہیں اور اس قسم کے ظلم و جبر پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اُنھیں اس قسم کی مجرمانہ خاموشی و تساہل کی زد میں آنے سے بچانا چاہئے ۔ نہ صرف بچنا بلکہ مزید تاخیر کے انھیں حقوق انسانی کے جہدکار بننا چاہئے ۔ اس طرح کا قدم اُٹھانا خاص طورپر امریکی شہریوں کیلئے ضروری ہے کیونکہ وہ ان کی ہی حکومت ہے جس کی تائید و حمایت کے باعث اسرائیل فلسطینیوں کے قتل عام، اُن کی نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔ ( ساتھ ہی اسرائیل امریکہ کی تائید کے نتیجہ میں ہی لبنان ، شام اور یمن کے ساتھ ساتھ ایران کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے) مثال کے طورپر لبنان میں اسرائیل نے پیجر دھماکوں کے ذریعہ ہزاروں کی تعداد میں شہریوں کا قتل کیا کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ لبنانی شہری پیجرس کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں ۔ شام پر اسرائیل کی دراندازی اس کی مسلسل بمباری ہمارے سامنے ہے وہ ( اسرائیل ) عالمی قوانین کی مسلسل دھجیاں اُڑا رہا ہے ۔
آپ کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ کوئی بھی شخص اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے کئے جارہے قتل عام اور اس کی جارحیت کو روکنے کیلئے کئی اقدامات کرسکتا ہے ۔ جن میں سے پہلا قدم یہ ہے کہ آپ اپنی حکومت پر اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کیلئے زور دے سکتے ہیں ۔ دنیا میں جہاں کہیں آپ رہتے ہیں اپنی حکومت پر زور دیں کہ وہ اسرائیلی سفیر کو ملک سے نکال باہر کرے اور اسرائیل میں تعینات اپنے سفیر کو واپس طلب کرے ۔ ساتھ ہی حکومت کو چاہئے کہ اسرائیل کے ساتھ تمام تجارتی تعلقات اور دیگر تعلقات ختم کرے تاکہ بائیکاٹ کو مستحکم کیا جاسکے ۔ اسرائیل میں اگر آپ کے ملک کی حکومت نے اور صنعتکاروں نے سرمایہ کاری کی ہے تو وہ سرمایہ واپس لے لیں اور اسرائیل کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی مہم چلائیں ۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ کم از کم 13 ملکوں بشمول اُردن ، بحرین ، ترکیہ ، بولوویا ، کولمبیا ، ہینڈروس ، چلی ، بیگویز ، برازیل ، جنوبی افریقہ ، چاڈ ، کیوبا اور شمالی کوریا نے اسرائیل سے سفراء کو واپس طلب کرلیا ہے اور اس کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کرلئے ہیں ۔ ہاں ان منقطع سفارتی تعلقات کو اس وقت بحال کیا جاسکتا ہے جب اقوام متحدہ سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی قراردادوں کو تسلیم کرلے ۔ اقوام متحدہ میں کئی ایسی قراردادیں منظور کی گئیں جن میں غزہ میں جنگ بندی پر زور دیاگیا ۔ اس کے علاوہ اسرائیل کو اس بات کیلئے مجبور کیا جائے کہ اقوام متحدہ نے متفقہ طورپر جو قرارداد 242 منظور کی ہے اس کے تحت جون 1967 ء کی جو سرحدیں تھیں اُسے بحال کیا جائے ۔
دوسرا اہم کام یہ کیا جائے کہ اپنی حکومتوں پر اس بات کیلئے زور دیا جائے کہ وہ عالمی فوجداری عدالت کے فیصلہ کا احترام کرے ۔ اپنی حکومت سے یہ بیان دینے کیلئے کہئے کہ وہ اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور اسرائیل کے سابق وزیر دفاع بوف گیلنٹ کے خلاف انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی جانب سے جاری وارنٹ گرفتاری کا احترام کرے گی ۔ آپ کو بتادیں کہ 22 نومبر 2024 ء کو نیوزویک نے اُن ملکوں کی فہرست جاری کی تھی جو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے وارنٹس کا احترام کریں گے۔ ان میں اٹلی ، نیدرلینڈ ، اسپین ، سوئٹزرلینڈ ، کینیڈا ، آئرلینڈ ، جنوبی افریقہ ، ترکی ، اُردن ، ناروے اور سوئیڈن شامل ہیں۔ دیگر ذرائع نے ان ملکوں کی فہرست میں فلجیم ، آسٹریا ، اور سلوانیہ کے نام بھی شامل کئے ۔
واضح رہے کہ آئی سی سی 124 ملکوں کا تسلیم کردہ ادارہ ہے تکنیکی طورپر دیکھا جائے تو دو اسرائیلی لیڈروں کو ان ملکوں کے دورے پر گرفتار کیاجاسکتا ہے ۔ رائٹرس نے اپنی رپورٹ مورخہ 28 نومبر 2024 میں صاف طورپر لکھا کہ یوروپین یونین فارن پالیسی سربراہ جوزیب بوریل نے یوروپی یونین کے تمام ارکان ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی جانب سے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری سے متعلق فیصلہ کااحترام کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے وجود کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتے اور یہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعہ عالمی انصاف حاصل کیا جاسکتا ہے ۔